انسانی زندگی کا ایک ظاہر وہ ہے جس کو بڑھاپا کہا جاتا ہے۔ بڑھاپا کو ئی غیر مطلوب چیز نہیں۔ بڑھاپے کی عمر میں انسان کے لیے ایک موقع موجود ہو تا ہے یعنی نصیحت لینا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا۔(سورة فاطر) روایت میں آتا ہے کہ جس آدمی کو لمبی عمر یا بڑھاپے کی عمر ملے اس کے پاس اللہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی عذر نہیں رہا۔ بڑھاپے کا دور دنیا میں موجود کسی بھی انسان کے لیے آخری دور ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد جو مرحلہ آتا ہے وہ موت کا مرحلہ ہے۔انسان اس دنیا میں محدود عمر کے لیے آتا ہے۔ چناچہ پیدا ہوتے ہی انسان کا کاﺅنٹ ڈاﺅن شروع ہو جاتا ہے۔ تقریباً 35 سال تک انسان کا گراف اوپر کی طرف جاتا ہے اس کے بعد وہ نیچے جانا شروع ہو جاتا ہے۔
ادھیڑ عمر ، بڑھاپا اور پھر آخر میں موت۔ اس دروان آدمی کو مختلف قسم کے نقصان اور مصائب پیش آتے ہیں۔ مثلاً بیماری ، حادثہ اور طرح طرح کے مسائل۔ اس طرح آدمی سے ایک ایک چیز چھنتی رہتی ہے۔ پہلے جوانی ، پھر صحت ، پھر سکون وغیرہ۔ یہاں تک کہ موت واقع ہو جاتی ہے۔ اور ہر وہ چیز جس کو آدمی اپنا سمجھتا ہے یہاں تک کہ اس کا اپنا جسمانی وجود بھی اس سے چھن جاتا ہے۔
بڑھاپا گویا کہ موت کی پیشگی اطلاع کی حثیت رکھتا ہے۔ بڑھاپے میں جسم کے بہت سارے اعضاءکمزور ہو جاتے ہیں حتی کہ بعض اعضا ئکام کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہیں گویا کہ موت قریب ہے۔اگر آدمی کا ذہن بیدار ہو تو وہ بڑھاپے کی عمر میں سوچنے لگے گا کہ اب وہ وقت جلد آنے والا ہے جب میری موت واقع ہو جائے گی اور میں اللہ تعالی کے سامنے حساب کتاب کے لیے حاضر کر دیا جاﺅں گا۔
بڑھاپے کے تجربات آدمی کو جھنجھوڑتے ہیں ، وہ اس کو آخرت کی یادہانی کرواتے ہیں۔ بڑھاپا آدمی کو بتاتا ہے کہ دنیا میں اب تمہارا سفر ختم ہو نے والا ہے۔ اب تمہیں لازمی اگلے دور میں داخل ہونا ہے اور حشر میں اللہ تعالی کی عدالت کا سامنا کرنا ہے۔ دوسرے مرحلے میں آدمی کے کام صرف وہ چیز آئے گی جو اس نے عمل صالح کی صورت میں آگے بھیجی ہے۔ سورة الحشر میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ” اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا “۔ سورة المک میں اللہ تعالی فرماتا ہے :”وہ جس نے زندگی اور موت پیدا کی تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے “۔ بڑھاپا برائے سبق ہے برائے شکایت نہیں۔