مقبوضہ کشمیر میںبھارت کو اپنا یوم آزادی منانے کا کوئی حق نہیں، حریت قیادت

اسلام آباد(خبرنگار) 19جولائی 1947کو سری نگر میں سردار ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس میں کشمیریوں کے نمائندوں نے متفقہ طور پر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی اس تاریخی قرارداد میں کشمیریوں کے پاکستان سے مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات اور لاکھوں کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے پیش نظر کشمیر کا پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کیا گیالیکن مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے مفاد کی خاطر عوامی مطالبات اور پاکستان سے الحاق کی خواہش کو نظر انداز کیاکشمیریوں کو خدشہ تھا کہ مہاراجہ مسلمانوں کی اکثریت کو پس پشت ڈال کر طاقت کے ذریعے کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا منصوبہ بنا رہا ہے اس متوقع اور غیر قانونی الحاق کی ناانصافی کا احساس کرتے ہوئے پشتون قبائلی افراد اپنے مسلمان بھائیوں کو بچانے کے لیے 22 اکتوبر 1947 کو کشمیر میں داخل ہوئے پشتون قبائلی افراد جن علاقوں کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے انہیں اب آزاد کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے بھارت نے 27 اکتوبر 1947 کو نام نہاد الحاق کے معاہدے کی بنیاد پر اپنی فوج سری نگر میں اتار دی۔ لیکن اس دن کو کشمیر اور اس سے باہر یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے دسمبر 1947 میں ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) سے رجوع کیاسلامتی کونسل نے 1948/49 میں متعدد قراردادیں منظور کیں جن میں جنگ بندی اور اس کی نگرانی میں رائے شماری کرانے کا کہا گیاتاکہ جموں و کشمیر کے عوام اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کر سکیں کہ آیا وہ اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتے ہیں یا بھارت میں بھارت نے آج تک مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری نہیں کروائی اور ساتھ ہی کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظر انداز کرتا آیا ہے رائے شماری کی بجائے بھارت نے جبر، ریاستی دہشت گردی، اور کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم کرنے کے لیے آبادیاتی تبدیلی کے لیے بیشمار وحشیانہ حربے اختیار کیے ہیںدنیا بھر کے کشمیری 15 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ بھارتی حکمران، خاص طور پر مودی کی زیر قیادت  ہندوتوا حکومت ،بھارتی آئین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے مرتکب ہیںکل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں اپنا یوم آزادی منانے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ بھارت نے کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف علاقے پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 10 لاکھ فوجیوں کو تعینات کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا عسکری زون بن چکا ہے 5اگست 2019 کو بھارت نے یکطرفہ طور پر بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور35A کو منسوخ کیاجس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی 2019کے اس اقدام کے بعد سے ہندوستانی حکومت نے مقامی لوگوں کے املاک کے حقوق میں یک طرفہ تبدیلیاں کی ہیں جن کی وجہ سے کشمیری عوام میں بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیںکشمیریوں کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین مسلم اکثریتی مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کر دیں گے کشمیر میں ایسی آبادیاتی تبدیلی لا کر بھارت نے جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے دوسری جانب اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے دفتر نے 2018 اور 2019 میں دو رپورٹیں جاری کیں جن میں بھارت پر کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیاہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ریاست ہونے کا دعوی تو کرتا ہے لیکن اس کا انسانی حقوق کا ریکارڈ ایک مکمل طور پر برعکس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کشمیر میں انسانیت کے خلاف بھارتی بربریت اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے جرائم نے بھارتی سامراج  کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کے شرمناک اوراق میں درج کر دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن