آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
چارسالہ بیٹی خرد فاطمہ اپنی ہی دنیا میں مگن کچھ سوچتی ہوئی ،ننھی سی چڑیا کی مانند چہچہاتی ہوئی میرے پاس آئی اور کہنے لگی ” ماں جشن آزادی کسے کہتے ہیں “
میں نے برجستگی کے ساتھ جواب دینے کے لئے لب وا کئے ہی تھے کہ ذہن دھندلانے لگے اور دل چیخ چیخ کر کہنے لگا کہ کیا تم جواب دینے سے پہلے پر اعتماد ہو کہ تم جشن آزادی کا مفہوم اس طرح سمجھا پاﺅ گی جس طرح سمجھانا چاہئے ؟ اصطلاحی اعتبار سے دیکھا جائے تو جشن کے معنی عید ، شادمانی ، مسرت و خوشی کے ہوتے ہیں جبکہ آزادی کے اصطلاحی معنی مکمل خود مختاری، حریت اور بے باکی کے ہیں ان مفاہیم کے لحاظ سے کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ حریت اور خود مختاری کے ساتھ خوشی و شادمانی محسوس کر سکیں ؟ یا سیدھے اور صاف الفاظ میں کیا ہم بحیثیت قوم اس کیفیت میں ہیں کہ جشن منا سکیں ؟وطن عزیز پاکستان جن حالات سے دوچار ہے ہم آزاد ہونے کے باوجود جس ذہنی پستی اور غلامی کا شکار ہیں دل نہیں مانتا کہ ہم ان حالات میں جشن آزادی منانے کے قابل ہیںمہنگائی اپنے عروج پر ہے بجلی کے بل جمع کروانے کے لئے عوام خون پسینہ ایک کر رہے ہیں پھر بھی ناکام ہیں نوجوان جنہیں کسی بھی ملک کا مستقبل سمجھا جاتا ہے وہ اپنی ڈگریاں تاریک مستقبل کی صورت ہاتھوں میں لئے بے چین و بے قرار بیٹھے ہیں وطن عزیز کا کوئی ایسا ادارہ نہیں جو اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہا ہو کوئی ایسا راہنما موجود نہیں جو اعلی عہدے پر فائز ہو اور اپنے اس عہدے کے ساتھ دیانتدار بھی ہو کسی بھی ملک کے اہم ادارے اور مقتدر منتخب شخصیات اسکی ترقی کے لئے اہم سمجھی جاتی ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم ان دونوں میں سے کسی ایک پر بھی اعتبار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں گویا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
یہ تمام باتیں کئی مرتبہ ہو چکیں آج ان سطور میں کچھ اور کہنا مقصود ہے۔۔ کہتے ہیں کہ تصویر کے ہمیشہ دو رخ ہوتے ہیں حالات کی خرابی ، ملکی بے ہنگم صورتحال کا ایک رخ تو ہم کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن آج مجھے تصویر کا دوسرا رخ دکھانا ہے شاید کہ میری بات پڑھنے والوں میں دل میں اتر سکے !!!
کہنا یہ ہے کہ ہر طرف چیخ و پکار ہے آہ و زاری ہے نامساعد حالات کے رونے ہیں جسے پوچھو وہی اس ملک کے حالات سے بیزار ہے بلکہ اپنے وطن اپنی جائے پیدائش سے ہی بیزار ہے اور کسی بھی طرح یہاں سے کہیں چلے جانے کے لئے پر تول رہا ہے سب کا کہنا ہے کہ اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے اس وطن نے آخر ہمیں دیا ہی کیا ہے ؟ لیکن وائے ناکامی آج تک کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آخر ہم نے اس پاک سرزمین کو کیا دیا ہے ؟ بد امنی ، بد دیانتی، انتشار ، بے ترتیبی،حدود سے تجاوز اور افراتفری کے علاوہ ہم دے ہی کیا پائے ہیں !!! اگر ماضی کی جانب نظر دوڑائی جائے تو ۲۵۹۱ سے لے آج تک جتنے بھی ” راہ نما “ ہمیں میسر آئے ہیں انہوں نے اگر نیک نیتی کے ساتھ وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی اور کامیابی و کامرانی کے لئے بھرپور محنت کی ہوتی اصول و ضوابط کے مطابق فیصلے کئے ہوتے طاغوتی طاقتوں کی خوشی کی بجائے عوام کی خوشی کا خیال رکھا ہوتا تو ہم اس پاک سرزمین کو وہ سب کچھ بہم پہنچا پاتے جس کی خواہش کے ساتھ اسے لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھالیکن بدقسمتی سے وطن عزیز کی سرپرستی جس کے بھی ذمے ہوئی اس نے بگاڑ اور انتشار پیدا کرنے میں خود کو ہمیشہ سرگرم عمل رکھا نتیجہ آپکے سامنے ہے ہمارے نئی نسل اپنے آباءکی تمام قربانیوں کو پس پشت ڈال کر اپنی جدی پشتی تمام زمینیں جائےدادیں فروخت کر کے کسی بھی طرح اس ملک سے چلے جانے کے در پے ہے تاکہ اپنے تاریک نظر آتے مستقبل کو سنوارا جا سکے حالانکہ اگر آج بھی خود پر انحصار کرتے ہوئے شخصیات کے پیچھے چلنے کی بجائے اداروں پر الزام تراشی کی بجائے اپنے قدموں پر آگے آئے،محنت کرے، ملکی ترقی میں حصہ لے اور اپنے اپنے کام بخوبی دیانتداری کے ساتھ سرانجام دے کر ملکی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تو وہ وقت دور نہیں ہو گا جب اندھیرا چھٹ جائے اور گلرنگ سویرا آنکھوں کو تقویت بخشنے لگے گا لیکن معلوم نہیں کیوں نظام کی خرابی کے شکوے ، مقتدر شخصیات کے حدود سے تجاوز کے شکوے ، اداروں کی بددیانتی کے شکوے ہماری عادت بن چکے ہیں اور اس عادت ت جان چھڑوانا مشکل محوس ہو رہا ہے شائد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر انسان کو مظلوم بنے رہنے میں لطف آنے لگے تو پھر اس کی بہتری کی خواہش عبث ہے !!!
ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں کہ ” ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود جرم ہے “ لیکن پھر بھی ۰۷ سال سے ظالموں کے ساتھ ہی ہیںاور دیکھ لیجئے زندہ بھی ہیں اقبال نے کہا تھا کہ
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
لیکن جس قوم میں ذوق یقیں ہی نا پید ہو اسکی جسمانی زنجیریں کٹ بھی جائیں ذہنی زنجیروں سے آزادی نہیں مل پاتی یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج اسقدر خطرناک حالات کا سامنا ہے کہ جشن کا لفظ تکلیف دے رہا ہے ، شرمندہ کر رہا ہے اور ” آزادی “ کا لفظ قعر مذلت میں دھکیل رہا ہے !!!
انہیں سوچوں میں محو تھی کہ خرد فاطمہ کی من موہنی آواز پھر سے سماعت سے ٹکڑائی ” ماں آپ نے بتایا نہیں ؟ چلیں میں مہندی لائی ہوں میرے ہاتھوں پر پاکستان زندہ باد لکھ دیں “ یہ کہہ کر اس نے اپنے ننھی ننھی ہتھیلیاں میرے گھٹنوں پر ٹکا دیں اور کسی تابندہ ستارے جیسی ٹمٹماتی آنکھوں سے میری جانب دیکھنے لگی یہ روشن آنکھیں اور یہ ننھے ہاتھ میری پاک سرزمین کا مستقبل ہیں ۔۔۔ میری آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آ گئے مہندی سے ان ننھے ہاتھوں پر اپنے پیارے وطن کے لئے دعا لکھی
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
مہندی سے کی گئی خطاطی کے ساتھ ساتھ خرد فاطمہ کو جشن آزادی کا مطلب بھی سمجھایا اور یہ بھی بتایا کہ ہم مسلمان۷۴۹۱ سے مکمل طور پر آزاد ہو چکے ہیں ہم ان اصولوں پر قائم و دائم ہیں جن اصول وضوابط کی بناءپر پاکستان بنایا گیا تھا ہم بحیثیت قوم اپنے افکار و خیالات اور اعمال میں دیانت دار ہیں ہماری پاک سرزمین امن و آشتی اور خوشحالی و کامرانی کا گہوارہ ہے اور اسے شدت سے انتظار ہے کہ خرد فاطمہ جلد از جلدبڑی ہو اور پورے خلوص اور دیانتداری کے ساتھ وطن کی خدمت کر کے اپنے حصے کی شمع روشن کرے
میں یہ سب کچھ بے اختیار اپنے دل کی وقتی تسکین کے لئے ہی سہی بولتی چلی جا رہی تھی خرد کی آنکھوں میں انہماک تھا م خوشی تھی چمک تھی اور مجھے اس چمک کو برقرار رکھنا تھا ویسے بھی مجھے معلو م تھا کہ خرد فاطمہ ابھی عمر کے جس حصے میں ہے اسکے لئے میری ہر بات حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے اور فی الحال میں جو بھی کہوں گی وہ آنکھیں بند کر سکے یقین کر لے گی !!!