پاکستانی تعلیمی ادارے اور خواتین اساتذہ 

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر
jamillahori@gmail.com

تعلیمی اداروں بالخصوص پاکستانی یونیورسٹیوں میں خواتین اساتذہ کو ہراساں کرنے کا مسئلہ ایک خوفناک تشویش ہے جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ تعلیمی ادارے، جنہیں سیکھنے اور پیشہ ورانہ ترقی کی پناہ گاہ ہونا چاہیے، تیزی سے ایسے ماحول بنتے جا رہے ہیں جہاں خوف اور دھمکیاں تعلیمی اور ذاتی ترقی کو زیر کرتی ہیں۔ ہراسمنٹ، خواتین اساتذہ کی فلاح و بہبود کے لیے ایک اہم خطرہ ہے، جو اپنے کردار کو موثر طریقے سے ادا کرنے کی ان کی صلاحیت کو مجروح کرتا ہے اور ان کی پیشہ ورانہ ترقی کو روکتا ہے۔ کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 جیسے قانونی تحفظات متعارف کرانے کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدامات اکثر ناکافی طور پر نافذ ہوتے ہیں۔ ہراساں کرنے کی اطلاع دینے میں ہچکچاہٹ، انتقامی کارروائی کا خوف اور ادارہ جاتی تعاون میں اعتماد کی کمی، انصاف کی راہ میں اہم رکاوٹ بنی جاتی ہیں۔
پاکستانی یونیورسٹیوں میں جن خواتین اساتذہ کو ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس کی اطلاع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔ وہ خود بھی خاموش رہتی ہیں اور ان کے کولیگز بھی ان کا ساتھ دینے میں ہچکچاتے ہیں۔ یہ ہچکچاہٹ بلا وجہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ اس ہچکچاہٹ کی بنیادی وجوہات میں سے ایک انتقامی کارروائی کا خوف ہے۔ بہت سے کیسز میں، ہراساں کرنے والا اس ادارے کا کوئی طاقتور شخص ہوتا ہے، اس کے انتظامیہ کے ساتھ گہرے روابط ہوتے ہیں یا کم ازکم اس کا بااثر گروہوں جیسے ٹیچر یونینز سے قریبی تعلق ہوتا ہے۔ یہ یونینز، جو کہ اساتذہ کے حقوق کی تحفظ کے لیے قائم کی جاتی ہیں، بعض اوقات ہراساں کرنے والوں کے لیے ڈھال بن جاتی ہیں، خاص طور پر اگر ملزم کا ان کے ساتھ خاص تعلق ہو۔ ہراسمنٹ کا شکار ہونے والی اساتذہ خواتین اس ڈر سے خاموش ہو جاتی ہیں کہ ہراسمنٹ کی اطلاع دینے سے انہیں سماجی تنہائی، پیشہ ورانہ تعصب، یا یہاں تک کہ ہراساں کرنے والے اور ان کے اتحادیوں سے براہ راست انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ اساتذہ یونین اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے متاثرہ کو بدنام کرنے کی کوشش کر سکتی ہے یا انتظامیہ پر مقدمہ ختم کرنے کے لیے دباو¿ ڈال سکتی ہے۔ یونینز کا ایسا دباو? بہت سی متاثرہ خواتین کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہراسمنٹ کی اطلاع نہیں دے پاتیں۔ 
ایک دوسری اہم وجہ ثقافتی بدنامی ہے کیونکہ ہمارا یہ المیہ ہے کہ ایسے کسی بھی واقعے میں ہمارا ذہن فوراً ہی خاتون کے بارے میں منفی سوچنا شروع کر دیتا ہے، ان کے کردار پر آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں، ان کی ماضی کی کسی چھوٹی موٹی غلطی کو بھی لوگ اسی تناظر میں دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں، جس سے خواتین کو لگتا ہے کہ ہراسمنٹ کی اطلاع دینے سے انہیں انصاف کیا خاک ملے گا الٹا مزید ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ اس ہچکچاہٹ کی تیسری اہم وجہ ادارہ جاتی ردّعمل ہے یعنی ایسے معاملات میں انتظامی مداخلت متاثرین کے لیے انصاف کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ اکثر، یونیورسٹی انتظامیہ ہراسمنٹ کے مسائل کو مو¿ثر طریقے سے حل کرنے کے بجائے ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہو جاتی ہے۔ ادارے کی ساکھ کا تحفظ یقیناً ایک اچھا اقدام ہے لیکن کیا اس کی قیمت ہراسمنٹ جیسے کیسز کو دبا کر ادا کی جانی چاہیے!!!؟ یونیورسٹی انتظامیہ ادارے کی ساکھ کے تحفظ میں ایسے واقعات کو دبا لیتی ہے اور اگر کوئی خاتون استاد یا اس کا کوئی کولیگ قانونی چارہ جوئی کی کوشش کرے یا میڈیا کے ذریعے اپنے حق کی آواز اٹھانے کی کوشش کرے تو اسے یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے یونیورسٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے بہانے تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں کبھی اس کو اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے یا کم از کم اس کی مزید ترقی کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں۔ اس ہچکچاہٹ کی ایک اور وجہ یونیورسٹی انتظامیہ پر اعتماد کا فقدان ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر یونیورسٹی انتظامیہ کو ہراسمنٹ کی کوئی درخواست دی جاتی ہے تو وہ درخواست ردّی کی ٹوکری کا حصہ بن جاتی ہے اور اس پر کبھی بھی کاروائی نہیں ہوتی۔ جس سے خواتین اساتذہ کو لگتا ہے کہ ہراسمنٹ کی درخواست دینا ایک فضول مشق ہے۔ 
پاکستانی یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات اور قانونی تحفظات کی ضرورت ہے۔ ہراسمنٹ ایک ایسا معاشرتی مسئلہ ہے جس کے لیے نہ صرف آگاہی کی ضرورت ہے، بلکہ کام کے محفوظ اور باوقار ماحول کو یقینی بنانے کے لیے قابل عمل حل کی ضرورت ہے۔ مضبوط قانونی فریم ورک اور مضبوط ادارہ جاتی پالیسیوں کے بغیر، بدسلوکی اور خاموشی کا سلسلہ پروان چڑھتا رہے گا، جس سے متاثرین کمزور اور مجرم طاقتور ہوتے چلے جائیں گے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے چند اقدامات یہ ہو سکتے ہیں کہ اس ضمن میں نافذ العمل پالیسیوں کو مو¿ثر طریقے سے یونیورسٹی کمیونٹی کے تمام ممبران تک پہنچایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر کوئی اپنے حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے دستیاب میکانزم سے باخبر ہے۔ پاکستان میں موجودہ قانونی فریم ورک، خاص طور پر کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010، ایک بنیاد فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے نفاذ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی پالیسیاں قومی قوانین سے ہم آہنگ ہوں۔ قانونی تحفظات ان لوگوں کو بھی ملنے چاہئیں جو متاثرین کی مدد کرتے ہیں، جیسے کہ متاثرین کے ساتھی یا گواہ، تا کہ وہ بھی انتقامی کارروائیوں سے محفوظ رہیں۔ متاثرین اور ان کی مدد کرنے والی ساتھیوں کی ملازمت کے تحفظ کو ہرصورت یقینی بنایا جائے۔ متاثرین کو کورٹ آنے جانے کے لیے یونیورسٹی نہ صرف ڈیوٹی لیو دے بلکہ سفر کے اخراجات بھی یونیورسٹی برداشت کرے۔ اگر ہراسمنٹ کا کیس ثابت نہ ہو سکے تو یونیورسٹی وہ تمام اخراجات واپس لینے کی مجاز ہو لیکن اگر ہراسمنٹ کا کیس ثابت ہو جائے تو متاثرہ خاتون کو بونس کے طور پر ملزم کی اگلی پانچ ماہ کی تنخواہ بھی دی جائے اور ملزم کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائے۔ مزید برآں، تعلیمی اداروں میں انتظامی طور پر ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں ادارے کی ساکھ پر ملازمین کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جائے۔ یونیورسٹیوں میں ہراسمنٹ کے مسائل حل کروانے کے لیے برائے نام بنائی گئی کمیٹیوں کو ختم کر کے صوبائی سطح پر ایسی با اختیار کمیٹیاں بنائی جائیں جو ملزموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں، خواہ ملزم ادارے کے اندر کسی بھی عہدے یا اثرورسوخ پر ہوں۔ 
پاکستانی یونیورسٹیوں میں ہراساں کیے جانے کا تسلسل انتظامی تبدیلی کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔ مذکورہ بالا ٹھوس اقدامات پر عمل درآمد کر کے، یونیورسٹیوں کو تمام فیکلٹی ممبران، خاص طور پر خواتین کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ معاون ماحول بنانے کو ترجیح دینی چاہیے جہاں خواتین اساتذہ ہراساں کیے جانے یا انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر ترقی کر سکیں۔ اس کے لیے نہ صرف مضبوط قانونی تحفظات اور رپورٹنگ کے شفاف طریقہ کار کی ضرورت ہے بلکہ ایک ثقافتی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے جو ساکھ سے زیادہ سالمیت کو اہمیت دے۔ ان تبدیلیوں کو اپناتے ہوئے، تعلیمی ادارے ایک زیادہ منصفانہ معاشرے کو فروغ دے سکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ خواتین اساتذہ باوقار اور پرامن طور پر بلاخوف ایسے کام کر رہی ہیں جس کی وہ مستحق ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...