ایک گرفتاری سے جْڑی کہانیاں

جس گرفتاری کا ان دنوں ہر محفل میں ذکر ہورہا ہے وہ ہماری تاریخ کی ’’اس‘‘ ادارے سے وابستہ رہے کسی فرد کی پہلی گرفتاری نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد اکبر نام کے اعلیٰ ترین افسر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ان کی اہلیہ بیگم نسیم جہاں بھی ان کے ساتھ گرفتار ہوئیں۔ بعدازاں بریگیڈئر سے میجر تک کے 20کے قریب افسر بھی گرفتار ہوئے۔ ان میں سے چند وعدہ معاف گواہ بن گئے اور ’’پنڈی سازش کیس‘‘ کے نام سے مشہور زمانہ مقدمہ قائم ہوا۔ فوجی افسران کے علاوہ کئی قدآور غیر فوجی بھی مذکورہ سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں برسوں اذیت خانوں اور جیلوں میں مقید رہے۔ نمایاں ترین نام ان میں مشہور شاعر فیض احمد فیض کا تھا۔ گرفتاری سے قبل فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ سے الگ ہوکر لاہور سے میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپرز کی جانب سے نکالے اردو اور انگریزی کے دو اہم اخبارات کے بانی مدیر اعلیٰ ہوئے تھے۔
پنڈی سازش کیس کے علاوہ بھٹو صاحب کے دور میں ’’اٹک سازش کیس‘‘ بھی منظر عام پر آیا۔ایک ’’سازش‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں بھی ہوئی تھی۔ ملکی تاریخ کا طالب علم ہوتے ہوئے لیکن میں حال ہی میں ہوئی گرفتاری کو ’’پنڈی سازش کیس‘‘ کی صورت اختیار کرتا دیکھ رہا ہوں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ پنڈی سازش کیس محض چند فوجی افسروں کی اپنی کمان یا حکومت وقت کے خلاف ’’بغاوت‘‘ ہی شمار نہیں ہوئی تھی۔ اصل الزام یہ تھا کہ مذکورہ سازش میں ملوث افراد پاکستان میں ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ کے کلیدی افراد کے ساتھ مل کر ’’انقلاب‘‘ برپا کرنا چاہ رہے تھے۔ مقصد اس کا پاکستان کو روس اور چین کی طرح سوشلسٹ ملک بنانا تھا۔
چند فوجی افسروں کو ہم خیال بناکر ’’سوشلسٹ انقلاب‘‘ برپا کرنے کا تجربہ اس سے قبل کسی بھی ملک میں نہیں ہواتھا۔ چین میں جو سوشلسٹ انقلاب آیا اسے برپا کرنے سے قبل ماؤزے تنگ نے اپنی قیادت میں اگرچہ ایک گوریلا تنظیم بھی بنائی تھی۔ مقصد اس کا چین پر قابض ہوئے جاپان کے خلاف مسلح مزاحمت تھی۔ غیر ملکی قبضے کے خلاف چین کا دایاں بازو بھی متحرک رہا۔ اس کی قیادت چیانگ کائی شیک کے پاس رہی۔ دائیں اور بائیں بازو کے گوریلے کئی برسوں تک غیر ملکی قبضے کے خلاف ’’متحدہ محاذ‘‘کی صورت جنگ آزادی لڑتے رہے۔ جاپان دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں شکست سے دو چار ہوا تو ماؤزے تنگ اور چیانگ کائی شیک نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے۔ بالآخر ماؤزے تنگ کی سوچ کامیاب وکامران ہوئی۔
اصل موضوع سے بھٹک گیا ہوں۔ واقعات کو تاریخ کے تناظر میں رکھے بغیر بات سمجھانا مگر مشکل ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں اگرچہ قارئین وناظرین کی اکثریت محض چند لفظوں کے ذریعے ’’مکدی گل‘‘ جاننے کا تقاضہ کرتی ہے۔ تاریخ کا ذکر چھڑ گیا تو یہ بھی یاد دلانے میں کوئی حرج نہیں کہ ایک روایتی فوج میں سے ’’انقلابی‘‘ ڈھونڈ کر انہیں حریف بنانے کے بعد ’’سوشلسٹ انقلاب‘‘ برپا کرنے کی کوشش اپریل 1978ء میں افغانستان میں بھی ہوئی۔ اس کے انجام سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ تاریخی تقاضوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد انگریز کی تربیت یافتہ فوج میں سے چند افراد کو ساتھ ملاکر ’’انقلاب‘‘ لانے کی کوشش اگر کامیاب ہوجاتی تب بھی انجام اس کا افغانستان کے نام نہاد ’’ثور انقلاب‘‘ جیسا ہونا تھا۔
1857ء کے ہولناک واقعات کے بعد برطانوی سامراج نے ہمارے بزرگوں کو قابو میں رکھنے کے لئے جس ریاستی ڈھانچے کو متعارف کروایا وہ بنیادی طورپر افسر شاہی پر مشتمل تھا۔ فوج کو روزمرہّ معاملات سے سوچی سمجھی پالیسی کے تحت سختی سے الگ رکھا جاتا تھا۔ روزمرہّ زندگی سے کٹی اورچھاؤنیوں تک محدود ہوئی فوج اور اس کے گھرانے ایک مخصوص ’’ثقافت‘‘ کے عادی بنائے جاتے تھے۔ پنڈی سے منسوب ہوئی ’’سازش‘ میں ملوث افراد یہ حقیقت بھی احمقانہ حد تک نظرانداز کرتے رہے کہ برطانیہ کا فوج کے حوالے سے تیار کردہ ماڈل "Unity of Command"کا مظہر تھا۔ کمان کی تکون کے حتمی نکتے پر جو شخص براجمان ہوتا اس کا حکم بارش کے پانی کی طرح پہاڑ کی چوٹی سے نیچے آتا ہے۔ کمان کی وحدت کمزور کرنے کی کوشش حتمی طورپر ادارے ہی میں خلفشار کو جنم دیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کی تازہ ترین مثال سوڈان میں خوفناک حد تک عیاں ہورہی ہے۔ ’’پنڈی سازش کیس‘‘ کی کامیابی کے امکانات محدود تر تھے۔ وہ اگر کامیاب ہوبھی جاتی تو ہمارا حال بھی ان دنوں کے سوڈان جیسا ہوتا۔ اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ پنڈی میں پروان ہوئی سازش ان دنوں کے مشرقی پاکستان پر کنٹرول قائم کرنے میں قطعاََ ناکام رہتی۔
فروعی معاملات کی جانب بھٹک جانے کے بجائے بنیادی طورپر عرض فقط یہ گزارنی ہے کہ جس گرفتاری کے چرچے ہورہے ہیں وہ بتدریج پنڈی سازش کیس کی طرح چند غیر فوجی افراد کی گرفتاریوں کی جانب بڑھے گی۔ پنڈی سازش کیس کا ہدف لیاقت علی خان حکومت کے خاتمے کے بعد ’’کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‘‘ کو اقتدار میں لانا تھا۔ وہ جماعت عوامی سطح پر مقبول نہیں تھی۔ اسی باعث اس سے منسوب سازش ناکام ہوئی تو عوام کی بے پناہ اکثریت گرفتار ہوئے افراد کی مصیبتوں سے لاتعلق رہی۔ سرد جنگ کا آغاز ہوجانے کے سبب مذکورہ سازش کی ناکامی امریکی کیمپ کے بھی بہت کام آئی پاکستان کو امریکہ نے روس کے خلاف اہم ترین مہرہ تسلیم کرلیا۔ کمیونزم کے خلاف لڑنے کے لئے ہماری فوج کوجدید ترین بنانے کی کاوشوں کا آ غاز ہوا۔ 1950ء   کی دہائی میں ہوئی سرمایہ کاری بالآخر 1980ء کی دہائی میں ’’افغان جہاد‘‘ کی صورت بارآور ہوئی۔
جس گرفتاری کے چرچے ہورہے ہیں وہ اگر واقعتا کسی ’’سازش‘‘ سے جڑی ہوئی ہے تو تعلق اس کا بالآخر جس سیاسی جماعت سے جوڑا جاسکتا ہے اس کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ’’حقیقی آزادی‘‘ مذکورہ جماعت کو مطلوب رہی ہے۔ میں ہرگز سمجھ نہیں پارہا کہ ’’حقیقی آزادی‘‘ کے حصول کے لئے ریاست کے اہم ترین ادارے کی ’’وحدتِ کمان‘‘ کے تصور سے چھیڑ چھاڑ کامل ابتری وانتشار کے سوا  ہمیں کیا فراہم کرسکتی ہے۔ کئی سوالات جو ذہن میں اْمڈ رہے ہیں انہیں بیان کردوں تو دور کی کوڑی لاتے سنائی دیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ خاموشی اختیارکرتے ہوئے اس بات کا انتظارکریں کہ جس گرفتاری کے چرچے ہیں وہ 2024ء کے ’’پنڈی سازش کیس‘‘ میں بدل سکتی ہے یا نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...