سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے انہوں نے امابعد کہا پھر کہا رسول اللہ ؐ ہم کو حکم دیتے تھے کہ ہم ان چیزوں میں سے زکوٰۃ نکالیں جنہیں ہم بیچنے کے لیے رکھتے تھے۔ عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی، اس بچی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپؐ نے اس سے پوچھا: کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ؐ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے میں پہنائے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انہیں رسول اللہ ؐ کے سامنے ڈال دئیے اور بولی یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں میں سونے کے اوضاح پہنا کرتی تھی، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا یہ کنز ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا جو مال اتنا ہوجائے کہ اس کی زکوٰۃ دی جائے پھر اس کی زکوٰۃ ادا کردی جائے وہ کنز نہیں ہے۔
حماد کہتے ہیں میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی، وہ کہتے تھے: یہ ابوبکر ؓ نے انس ؓکے لیے لکھی تھی، اس پر رسول اللہ ؐ کی مہر لگی ہوئی تھی، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو یہ کتاب انہیں لکھ کردی تھی، اس میں یہ عبارت لکھی تھی: یہ فرض زکوٰۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ ؐ نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ؐ کو دیا ہے، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکوٰۃ طلب کی جائے، وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے، وہ نہ دے: پچیس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے، جب پچیس اونٹ پورے ہوجائیں تو پینتیس تک میں ایک بنت مخاض ہے، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیدے، اور جب چھتیس اونٹ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں ایک بنت لبون ہے، جب چھیالیس اونٹ پورے ہوجائیں تو ساٹھ تک میں ایک حقہ واجب ہے، اور جب اکسٹھ اونٹ ہوجائیں تو پچہتر تک میں ایک جذعہ واجب ہوگی، جب چھہتر اونٹ ہوجائیں تو نوے تک میں دو بنت لبون دینا ہوں گی، جب اکیانوے ہوجائیں تو ایک سو بیس تک دو حقہ اور جب ایک سو بیس سے زائد ہوں تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ دینا ہوگا۔ اگر وہ اونٹ جو زکوٰۃ میں ادا کرنے کے لیے مطلوب ہے، نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذعہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی، اور ساتھ ساتھ دو بکریاں، یا بیس درہم بھی دیدے۔ یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کرلی جائے گی، البتہ اب اسے عامل (زکوٰۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبون ہی اس سے قبول کرلی جائے گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی اگر اسے میسر ہو تو اس سے دو بکریاں یا بیس درہم واپس لے لیں گے، اگر کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں، جن میں بنت لبون واجب ہوتا ہو اور بنت لبون کے بجائے اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے قبول کرلیا جائے گا اور زکوٰۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں جن میں بنت لبون واجب ہوتی ہو اور اس کے پاس بنت مخاض کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس سے بنت مخاض لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم اور لیے جائیں گے، جس کے اوپر بنت مخاض واجب ہوتا ہو اور بنت مخاض کے بجائے اس کے پاس ابن لبون مذکر ہو تو وہی اس سے قبول کرلیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز واپس نہیں کرنی پڑے گی، اگر کسی کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دیدے۔ اگر چالیس بکریاں چرنے والی ہوں تو ان میں ایک سو بیس تک ایک بکری دینی ہوگی، جب ایک سو اکیس ہوجائیں تو دو سو تک دو بکریاں دینی ہوں گی، جب دو سو سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک تین بکریاں دینی ہوں گی، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو پھر ہر سینکڑے پر ایک بکری دینی ہوگی، زکوٰۃ میں بوڑھی عیب دار بکری اور نر بکرا نہیں لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مصلحتاً زکوٰۃ وصول کرنے والے کو نر بکرا لینا منظور ہو۔ اسی طرح زکوٰۃ کے خوف سے متفرق مال جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ جمع مال متفرق کیا جائے گا اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ ایک دوسرے پر برابر کا حصہ لگا کرلیں گے اگر چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک چا ہے تو اپنی مرضی سے کچھ دیدے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ دیا جائے گا البتہ اگر وہ صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں سوائے اس کے کہ مالک کچھ دینا چاہے۔
ابن شہاب زہری کہتے ہیں یہ نقل ہے اس کتاب کی جو رسول اللہؐ نے زکوٰۃ کے تعلق سے لکھی تھی اور وہ عمر بن خطابؓ کی اولاد کے پاس تھی۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھایا تو میں نے اسے اسی طرح یاد کرلیا جیسے وہ تھی، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا، پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا: جب ایک سو اکیس اونٹ ہوجائیں تو ان میں ایک سو انتیس تک تین بنت لبون واجب ہیں، جب ایک سو تیس ہوجائیں تو ایک سو انتالیس تک میں دوبنت لبون اور ایک حقہ ہیں، جب ایک سو چالیس ہوجائیں تو ایک سو انچاس تک دو حقہ اور ایک بنت لبون ہیں، جب ایک سو پچاس ہوجائیں تو ایک سو انسٹھ تک تین حقہ ہیں، جب ایک سو ساٹھ ہوجائیں تو ایک سو انہترتک چار بنت لبون ہیں، جب ایک سو ستر ہوجائیں تو ایک سو اناسی تک تین بنت لبون اور ایک حقہ ہیں، جب ایک سو اسی ہوجائیں تو ایک سو نو اسی تک دو حقہ اور دوبنت لبون ہیں، جب ایک سو نوے ہوجائیں تو ایک سو ننانوے تک تین حقہ اور ایک بنت لبون ہیں، جب دو سوہوجائیں تو چارحقے یا پانچ بنت لبون، ان میں سے جو بھی پائے جائیں، لے لیے جائیں گے۔ اور ان بکریوں کے بارے میں جو چرائی جاتی ہوں، اسی طرح بیان کیا جیسے سفیان بن حصین کی روایت میں گزرا ہے، مگر اس میں یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ میں بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی، اور نہ ہی غیر خصی (نر) لیا جائے گا سوائے اس کے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا خود چاہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی مبارک سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔