ذمہ دار طیورکی زبانی اْڑتی سی اک خبر یوں ملی ہے کہ 9 مئی کے روز فوج کے جن 232 اہداف پر حملے کئے گئے تھے۔ ان کا تعین جنرل فیض نے کیا تھا جو اب باضابطہ سرکاری مہمان ہیں اور زیرِ کورٹ مارشل ہیں۔ اطلاع کے مطابق 9 مئی کے متعلق سارے فیصلے ایک سہ رکنی کمیٹی نے کئے تھے جس کے صدر جنرل فیض، مہمان خصوصی گریٹ خان اور ویٹو پاور ہولڈر مٹکے والی سرکار تھی اور اطلاع میں جو سب سے اہم بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فیصلوں کی حتمی منظوری مٹکے والی سرکار کے مٹکے نے دی۔ مٹکے کے اردگرد کالے ماش کا دائرہ بنایا گیا۔ فیصلے اشاروں کی زبان میں کاغذ کی پرچیوں پر لکھے گئے، یہ پرچیاں مٹکے میں ڈالی گئیں، پھر منہ بند کر کے مٹکے کے اوپر لکڑی (یا کوئی اور شے) گھمائی گئی اور بعدازاں پتہ چلا کہ مٹکا شریف نے تمام فیصلوں کی منظوری ہمراہ اس بشارت کے دے دی کہ پلان کامیاب ہو گا۔ موکلوں نے ٹھوک بجا کر تخمینہ لگایا کہ فیصلہ سعد گھڑی میں کیا گیا ہے، مہورت بہت ہی شبھ ہے اور شبھ شبھ شمبھو میں کوئی شبہ ، کوئی شائبہ نہیں۔
مٹکے والی سرکار کا اعتبار لیکن 9 مئی کی شام ٹوٹنے لگا اور بعد کے حالات میں پہلے گریٹ خان عرف دولہے میاں جیل پہنچے، پھر مٹکے والی سرکار اور اب قدرے دیر سے صاحب صدر بھی۔ اس سارے منترے میں گھوٹالا کیونکر ہوا، مٹکے والی سرکار بھی حیران ہے کہ ایک کے بعد ایک کے حساب سے سارے سیدھے کام بھی پھر الٹے ہی ہوتے گئے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ احکامات کی سماعت کے دوران موکل دھوکہ کھا گئے، بعضوں کا خیال ہے کہ نہیں، خود موکل ہی دھوکے باز تھے، بے وفائی کر گئے یعنی لوٹا ہو گئے۔
_____
جنرل فیض اپنے دورِ اختیار میں مرد آہن کہلاتے تھے لیکن دوران حراست وہ خمیرہ ابریشم نکلے، یہ مٹکے والی بات بھی انہوں نے اپنے اس ابریشمی مرحلے میں بتائی اور صرف مٹکے والی سرکار ہی نہیں، اس تفتیش کے دوران انہوں نے کتنے ہی پردہ نشینوں کے نام بھی لے دئیے اور یہ بھی بتا دیا کہ کس نے کیا کیا کارنامے کئے۔
سْنا ہے درجنوں گرفتاریاں اس تفتیش کی روشنی میں ہوں گی۔ کچھ ریٹائرڈ، کچھ حاضر سروس، کچھ سول بیوروکریٹ، کچھ انقلاب پارٹی کے بڑے عہدیدار ، کچھ ورکر، حتیٰ کہ کچھ ٹی وی میزبان اور یوٹیوبر اور مزید حتّی کہ بعض ججوں کے نام بھی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ بڑے منصف اور اس کے ساتھی منصفوں نے خان کو دیکھ کر جب ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہا تھا تو ایسے ہی نہیں کہا تھا۔ اس کے پیچھے یہ ’’یقین محکم‘‘ تھا کہ بس دو چار دنوں کی بات ہے، انقلاب آیا کہ آیا، پھر ہم تم ہوں گے منگل ہو گا، رقص میں سارا جنگل ہو گا اور اگلے روز جو خان کیلئے ضمانتوں کا جمعہ بازار سجا اور احکامات صادر ہوئے کہ جو مقدمات ابھی بنے ہی نہیں، ان میں بھی ضمانتیں منظور کی جاتی ہیں تو اس ماجرے کے پیچھے بھی یہی ’’یقین محکم‘‘ کارفرما تھا اور یہ بھی پتہ چلا ہے کہ چھ نے جو خط لکھا تھا اور ریاست پر الزامات بلاثبوت لگائے تھے تو اس خط کی علّت اولیٰ بھی اسی چشمہء فیض سے پھوٹی تھی۔
_____
خود گریٹ خان اب کیا کہتے ہیں؟۔ کہتے ہیں کہ میرا جنرل فیض سے کیا لینا دینا ، میرے تو ان کے ساتھ محض پروفیشنل تعلقات تھے۔ میں وزیر اعظم تھا اور وہ ادارے کے سربراہ ، بس یہی ورکنگ ریلیشن شپ تھی۔
اس ایک ننّھے منّے سے فقرے نے پوری داستان یاد دلا دی۔ جب جنرل فیض کا تبادلہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو کس طرح گریٹ خان نے زمین پر لیٹ کر ہاتھ پائوں چلانے شروع کر دئیے تھے اور تب تک چلاتے رہے تھے جب تک تبادلے کا فیصلہ موخر نہیں ہو گیا۔ خان نے اس موقع پر کہا، میری حکومت کے استحکام کیلئے جنرل فیض کا اپنی جگہ رہنا ضروری ہے نیز افغان مسئلے کا بھی تقاضا ہے کہ انہیں اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔
یہ التوا بہرحال عارضی تھا، کچھ عرصہ بعد تبادلہ بالآخر ہو گیا اور خان اور مٹکے والی سرکار دونوں ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ایک موقع پر خان نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح قانون سازی اور اعتماد کے ووٹ کے مرحلوں پر ہمارے بندے باغی ہو جاتے تھے اور کس طرح فیض صاحب انہیں گھیر گھیر کر پکڑ پکڑ کر لاتے تھے۔ اور پھر وہ ملاقاتوں کے سلسلے، لوگوں کو اس کے علاوہ بھی بہت کچھ یاد ہے۔
بہرحال، خان کہتے ہیں کہ محض ’’پروفیشنل‘‘ تعلق تھا تو پھر سچ ہی کہتے ہوں گے۔
_____
مٹکے والی سرکار کے پلوّ سے بندھی لال حویلی کی سرکار بھی پھر منقار بالائے پر ہوئی ہے اور فرمایا ہے کہ اکتوبر میں ٹیکنو کریٹ حکومت دیکھ رہا ہوں۔
مطلب حتمی طور پر یہ نکلا کہ اکتوبر میں یا مابعد اکتوبر کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت نہیں آ رہی۔ لال حویلی والی سرکار جب بھی کہتی ہے کہ میں فلاں شے کو دیکھ رہا ہوں تو مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ چیز کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔
انہوں نے فرمایا، ملک میں خونیں انقلاب دیکھ رہا ہوں۔ سیانے سمجھ گئے تھے کہ شیخ جی دراصل یہ بتا رہے ہیں کہ سب امن رہے گا، کچھ برا نہیں ہونے والا۔ شیخ نے کہا میں ملک کو دیوالیہ ہوتے دیکھ رہا ہوں، سب سمجھ گئے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔
جو معاملہ سچ میں ہونے والا ہوتا ہے، شیخ جی اسے کبھی نہیں دیکھتے، نہ بیان کرتے ہیں۔ ورنہ دوچار بیان ان کے یوں ہو سکتے تھے کہ میں خان کو اڈیالہ میں دیکھ رہا ہوں، میں پنکی پیرنی سے بھی ایسا ہی ہوتا دیکھ رہا ہوں، میں فیض کا کورٹ مارشل دیکھ رہا ہوں، میں خان کو بڑی کڑکی میں پھنسا دیکھ رہا ہوں، میں پنجاب میں مریم کی حکومت دیکھ رہا ہوں، میں خود کو بھی اندر ہوتے دیکھ رہا ہوں ، میں خود کو ایک بار پھر اندر دیکھ رہا ہوں۔
_____
وزیر اعظم شہباز شریف بھی ’’کوڈ‘‘ والی زبان میں خطاب کرتے ہیں۔ کل فرمایا ، جلد بجلی سستی کرنے کا اعلان کروں گا۔ سمجھنے والے سمجھ گئے کہ بجلی مزید مہنگی ہونے والی ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ فی یونٹ کے حساب سے کیا جائے گا یا کوئی نیا ٹیکس لگا کر مہنگی کی جائے گی۔
نیا ٹیکس لگا تو اس کا نام ’’خوشخبری‘‘ ٹیکس ہو سکتا ہے۔