حافظ خواجہ محمد حسنین اویسی
تمام مذاہبِ عالم میں خالق و مخلوق کے درمیان روحانی ربط کی استواری "دعا" پر موقوف ہے۔دعا کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مآل صرف ایک ہی ہے،کہ بندہ اپنے بنانے والے کو منائے۔دعا کے متعلق اسلام نے بڑی تفصیل سے رہنمائی فرمائی ہے۔اس کے مختلف طریقے بتائے ہیں۔اس میں خشوع و خضوع حاصل کرنے کے اسلوب بتائے ہیں۔قرآن و احادیث میں دعا کی تلقین پرکثیر نصوص ملتی ہیں۔لیکن کچھ دعائیں خاص ہوتی ہیں،ان کا منہج خاص ہوتا ہے اور وہ یقینی طور پہ نتیجہ خیز ہوتی ہیں۔ایسے طریقوں سے دعا کی تحصیل بندے کو مستجاب الدعوات بنا دیتی ہے۔
انہیں طریقوں میں ایک اعظم طریقہ "اسم اعظم" کا ہے۔یہ ایک ایسا طریقہ ہے جو انسان کو اپنے وجود میں ان واردات حسن کو تلاشنے اور ان کی معرفت حاصل کرنے میں اعانت کرتا ہے،جن کو دیکھ کر فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔اس کے متعلق احادیث میں تصریحات موجود ہیں اور اس کے پڑھنے والے کے لیے انعام و اکرام کی بشارت ہے۔یہ اسم صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ اس پوری کائنات کو بدل کر رکھ دینے کی طاقت رکھتا ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 243 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "اے حبیب! کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا تھا جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تو اللہ نے ان سے فرمایا :مرجاؤ!پھر انہیں زندہ فرما دیا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے "قرآن پاک میں ان لوگوں کے متعلق اور وضاحت کہیں نہیں ملتی کہ وہ کون لوگ تھے؟وہ گھروں سے کیوں نکلے تھے؟اور انہیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیوں کیا گیا؟یہ آیت بس یہیں تک ہے۔حضرت عبد اللہ ابن عباسؓاس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ بنی اسرائیل کے کوئی لوگ تھے جو موت کے ڈر سے بھاگے تھے۔اور یہ بات حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد کی ہے۔ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس علاقہ میں طاعون کی وبا پھیل گئی تھی اور یہ لوگ موت کے ڈر سے وہاں سے بھاگے اور کسی صاف،چٹیل اور ہوا دار جگہ پر پہنچ کر ٹھہر گئے لیکن موت تو انہیں پھر بھی آ ہی گئی۔ دو فرشتوں کی چیخ سے انہیں ہلاک کر دیا گیا ۔یہاں تک کہ ایک بہت طویل عرصہ گزر گیا اور ان سب کے جسم ہڈیوں کا ڈھیر بن گئے۔پھر وہاں سے ایک نبی حضرت حزقیل علیہ السلام کا گزر ہوا اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ سے زندہ کیا۔اب حضرت حزقیل علیہ السلام کون تھے؟قرآن پاک میں ان کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا؟اور یہ واقعہ ان کے سامنے ہی کیوں ہوا؟ یہودیوں کی مقدس کتاب توریت میں ایک پورے Chapter کا نام ہے Ezekiel Book Of The یہ پورا چیپٹر حضرت حزقیل علیہ السلام کے چھ مشاہدات (Visions) پہ لکھا ہوا ہے حضرت حزقیل علیہ السلام کو جو عجائبات دکھائے گئے تھے ان میں ایک مکاشفہ " The of Dry Bones Valley کے ساتھ موسوم ہے،یعنی خشک ہڈیوں کی وادی۔اس واقعہ میں یہ ہوتا ہے کہ حضرت حزقیل علیہ السلام ایک وادی سے گزرتے ہیں۔جس میں ہڈیاں بکھری پڑی ہوتی ہیں۔اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہڈیاں اکٹھا ہونا شروع ہوتی ہیں اور ان پہ گوشت چڑھ جاتا ہے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مکمل انسان بن کر زندہ ہو جاتے ہیں۔بالکل ویسے ہی جیسے حضرت ابن عباس نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔پھر اس چیپٹرکے مطابق دوسرا مکاشفہ یہ تھا کہ حضرت حزقیل علیہ السلام نے دیکھا کہ مستقبل میں یروشلم تباہ ہو گا۔تیسرا مکاشفہ یہ تھا کہ یروشلم تباہ ہونے کے بعد یہودی غلام بنیں گے۔چوتھا Vision یہ تھا کہ غلام بننے کے بعد یہودی ایک دفعہ پھر آزاد ہوں گے۔پانچواں مشاہدہ یہ تھا کہ حضرت سلیمان ؑ کی بنائی ہوئی مسجد جسے ہم مسلمان ہیکل سلیمانی کہتے ہیں اور یہودی اسے Temple of Solomon کہتے ہیں،وہ ایک دفعہ پھر بنے گا۔اور چھٹا Vision جو سب سے طاقتور اور انتہائی عجیب ہے کہ حضرت حزقیل علیہ السلام کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آسمان میں ایک بہت بڑی اور عظیم الشان رتھ یعنی Chariot اڑ رہی ہے۔جسے چار جاندار کھینچ رہے ہیں ایک جاندار کا چہرہ آدمی کی طرح ہے، دوسرے کا چہرہ شیر کی طرح ہے، تیسرے کا چہرہ بیل کی طرح ہے اور چوتھے کا چہرہ عقاب کی طرح ہے یہ رتھ ایسی تھی جیسے سونے کے پہیوں کے اندر بھی پہیے بنے ہوں اور ہر پہیے پر لا تعداد آنکھیں بنی ہوئی ہیں اور اس رتھ میں بیٹھے ہوئے شخص نے مجھے یہ بتایا ہے کہ اے حزقیل تم نبی ہو اور تمہیں بنی اسرائیل کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے یہیں رکیں اور ذرا اس منظر کو تصور کریں۔یقیناً وہ کوئی عظیم الشان فرشتہ تھا جو حضرت حزقیل علیہ السلام سے بات کرنے کے لیے آیا تھا۔کیا واقعی حضرت حزقیل علیہ السلام نے فرشتے سے بات کی تھی؟ کیوں کہ The
Book of Ezekiel میں اس کے آگے لکھا ہے کہ حزقیل نے خدا سے بات کی تھی۔لیکن حضرت حزقیل علیہ السلام سے فرشتہ نے ہی بات کی تھی۔اس کی دو وجوہات ہیں۔پہلی یہ کہ اسلامی دنیا میں بھی اسی طرح کے ایک فرشتے کا ذکر ملتا ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ حضرت حزقیل علیہ السلام نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ میں نے خدا سے بات کی تھی۔اور نا ہی The Book of Ezekiel کو انہوں نے خود لکھا تھا بلکہ اسے تو اس دور میں لکھا گیا تھا جسے The Period of the Great Assembly کہتے ہیں۔
یہ چھ مکاشفات جاننے کے بعد آپ نے کوئی خاص چیز محسوس کی،کہ یہ واقعات کوئی معمولی آدمی کے نہیں ہیں بلکہ یہ Divine نوعیت کے ہیں،آسمانی نوعیت کے ہیں۔ان تمام باتوں کو دیکھ کر یہودی یہی سمجھے تھے کہ ان کے پاس کوئی علم ہے،جس سے یہ باہر کی دنیائیں دیکھ رہے ہیں۔اسی وجہ سے یہودیوں نے حضرت حزقیل علیہ السلام میں ایک خاص Interest لینا شروع کر دیا تھا۔کہ وہ کون سی طاقت ہے جس سے حضرت حزقیل اس قابل ہو گئے تھے ۔یہودیوں کے مطابق وہ حروف کا اور خدا کے چھپے ہوئے ناموں کا علم تھا۔یعنی اسم اعظم کا علم۔
یہودیوں کے مطابق یہ اسم اعظم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی پتہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے سمندر کے دو ٹکڑے کر دئیے ان کے مطابق یہ نام حضرت ادریس علیہ السلام کو بھی پتہ تھا جس کی وجہ سے وہ ایک فرشتہ کے ساتھ آسمانوں میں گئے۔
اب اسم اعظم ہے کیا؟اور اسلام میں اس کی کیا حقیقت ہے؟ایک دفعہ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا:اسم اعظم کیا ہوتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: اگر تمہیں پتہ چل جائے تو تم پانی پر چلنے لگو اور تمہارے پاؤں بھی گیلے نہ ہوں۔بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے ایک شخص کو ان کلمات کے ساتھ: «اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں بایں طور کہ میں تجھے گواہ بناتا ہوں اس بات پر کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، تو اکیلا (معبود) ہے تو بے نیاز ہے، (تو ایسا بے نیاز ہے) جس نے نہ کسی کو جنا ہے اور نہ ہی کسی نے اسے جنا ہے، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہوا ہے»دعا کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ’’قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی گئی ہے اس نے وہ دعا قبول کی ہے، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی گئی ہے اس نے دی ہے(ترمذی:3475)
لیکن آخر وہ اسم اعظم ہے کیا؟
حضرت عمیر بن سعید نخعیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے مجھے ایک واقعہ سنایا،کہ دو فرشتے تھے جو لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ کیا تم مجھے وہ نام بتا سکتے ہو کہ جن کے ذریعے تم آسمانوں میں جاتے ہو پھر زمینوں پہ واپس آتے ہو؟ان فرشتوں نے بتایا کہ وہ راز اسم اعظم ہے۔کہ جو ہمیں آسمانوں پہ لے جاتا ہے اور زمینوں پر واپس لے آتا ہے۔اب اس عورت نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح اسے بھی اسم اعظم پتہ چل جائے۔مگر فرشتے اسے وہ نام بتانے پر راضی نہیں ہو رہے تھے۔لیکن آخر اس عورت نے پوری کوشش کر کے انہیں منا ہی لیا۔اور اسم اعظم پڑھ کر جب اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو واقعی اس کے قدم آہستہ آہستہ زمین سے اٹھنے لگے۔اس کی آسمان کی طرف پرواز شروع ہوئی،اور اسی وقت ایک فرشتہ اتنی زور سے چیخا کہ اس کا سر ایک طرف لڑکھ گیا۔اور اس عورت کو بھی یہ سزا ملی کہ اسے بھی آسمان کی طرف لے جا کر مسخ کر دیا گیا۔
صرف ایک منٹ کے لیے Imagine کریں کے یہ واقعات کیسے ہوئے ہوں گے۔
قرآن پاک میں حضرت سلیمان ؑ کا واقعہ بھی بڑی تفصیل سے درج ہے۔کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے تخت بلقیس کو لانے کا حکم دیا تو جنات کی قسم میں سے ایک انتہائی Powerful عفریت جن نے کہا کہ اے سلیمان! میں اتنا Powerful ہوں کہ آپ کی مجلس برخواست ہونے سے پہلے تخت لے آؤں گا۔لیکن یہ بات سن کر دربار میں موجود ایک اور شخص بھی کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنی دیر،میرے پاس تو وہ طاقت ہے کہ اے سلیمان! آپ کی پلکیں جھپکنے سے پہلے یہاں تخت لے کر حاضر ہو سکتا ہوں۔اور واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔حضرت ابن عباس کے مطابق وہ شخص آصف بن برخیا تھا اور اس کی طاقت کا راز بھی اسم اعظم ہی تھا اسی کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ تخت حاضر کرنے پر قادر ہوا تھا۔المعجم الکبیر اور ابن مردویہ کی تفسیر میں بھی اسم اعظم کے متعلق یہی صفت ملتی ہے کہ یہ پڑھنے کے بعد آپ جو بھی اللہ سے مانگیں گے وہ مل جائے گا ۔حضرت ابو امامہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ :اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم قرآن کی تین صورتوں میں ہے ۔ البقرہ،آل عمران اور طہ میں۔(سلسل الصحیحہ:2757)
سورہ اعراف کی آیت نمبر 175،176 میں ہے کہ:اور اے محبوب! انہیں اس آدمی کا حال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیات عطا فرمائیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تووہ آدمی گمراہوں میں سے ہوگیا۔ قرآن پاک کی یہ آیات بالکل Stand Alone آیات ہیں ان کا سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں کہ آخر وہ کون شخص تھا جسے اللہ نے اپنی نشانیاں عطا کیں؟ تقریباً تمام تفاسیر میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا جس کے پاس اسم اعظم کا علم تھا۔اس شخص کا نام تفاسیر میں بلعم بن باعورا آیا ہے۔
ایک مرتبہ اس کی بیوی نے اس سے درخواست کی تھی کہ تمہیں اسم اعظم کا علم ہے اور تم میرے لیے دعا کرو کہ میں دنیا کی حسین ترین عورت بن جاؤں۔بلعم نے اسم اعظم کے ذریعے دعا کی اور پھر ایسا ہی ہوا۔اور اس کی بیوی بنی اسرائیل کی خوبصورت ترین عورت بن گئی اور اپنے حسن کے ساتھ وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی بننے لگ گئی۔بنی اسرائیل کے بڑے بڑے لوگ اس کی طرف مائل ہو کر اس کے سامنے جھکنے لگے اور پھر ایک وقت آیا کہ وہ بھی ان کی طرف مائل ہونے لگ گئی تب بلعم نے بد دل ہو کر اس کی بدصورتی کی دعا کی۔یہاں تک کہ وہ ایک بد صورت کتیا جیسی لگنے لگ گئی۔ مگر بلعم نے اپنے بچوں کے لعن طعن سے تنگ آ کر ایک دفعہ پھر اسم اعظم کا استعمال کیا اور اس کی بیوی اپنی اصلی شکل میں دوبارہ آ گئی۔یوں اس شخص کو اسم اعظم کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور اس سے اسم اعظم واپس لے لیا گیا۔
جامع ترمذی میں ایک حدیث(3340) موجود ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ صحابہ کرام ؓنے غور کیا کہ عصر کی نماز کے بعد آپؐ ھمس کیا کرتے تھے۔ھمس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہونٹوں کے ہلانے سے باتیں کرنا۔ دیکھنے والے یہ معلوم نہ کر سکیں کہ کیا بات کہی تو صحابہ نے آپؐ سے پوچھا کہ آپ کیا پڑھتے ہیں؟تو اس پر آپؐ نے صحابہ کرام کو یہ واقعہ سنایا۔
(جاری ہے)