یقینا 16دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب مشرقی پاکستان میں بھارت کے ساتھ جنگ بندی قبول کرتے ہوئے پاک فوج کی ایسٹرن کمانڈ نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس عظیم سانحہ کی تحقیقات کیلئے باقی ماندہ پاکستان کے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جس نے مشرقی پاکستان میں افواج پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کی وجوہات کے بارے میں رپورٹ تیار کرنا تھی۔ اس کمیشن کو دسمبر 1971ء سے پہلے تک کے سیاسی اسباب اور ملک کے اندر جاری محلاتی سازشوں کے بارے میں کچھ جاننے یا اس سلسلے میں کھوج لگانے سے روک دیا گیا تھا۔ کمیشن کے سربراہ اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس حمود الرحمن قرار پائے۔ کمیشن کے دیگر مددگار اراکین میں جسٹس انوار الحق جج سپریم کورٹ اور جسٹس طفیل علی عبدالرحمان چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائی کورٹ شامل تھے۔ کمیشن کا فوجی مشیر لفٹینٹ جنرل (ر)الطاف قادر کو مقرر کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار ایم اے لطیف بطور سیکریٹری مقرر ہوئے، اس کمیشن نے پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء کی شق 3 کی ذیلی شق نمبرایک کے تحت حاصل شدہ اختیارات کی رو سے یکم فروری 1972ء کو روالپنڈی کے ایک بند کمرے میں منعقد کیے گئے اجلاس سے تحقیقات کا آغاز کیا۔ بعدازاں کمیشن نے مجموعی طورپر 213گواہوں کے بیانات قلمبند کرتے ہوئے عبوری رپورٹ 12جولائی 1972ء کو حکومت پاکستان کے حوالے کردی۔ ساتھ ہی ایک نوٹ شامل کیا گیا کہ بھارت سے جنگی قیدیوں کی واپسی کے بعد مکمل رپورٹ مرتب کی جائے گی۔
جنگی قیدیوں کی بھارت سے واپسی اپریل 1974ء میں ممکن ہوئی۔ ا سکے بعد کمیشن نے دوبارہ تحقیقات کا آغاز کیا اور از سرنوگواہیاں قلمبند کرنے کے بعد آخر کار 1974ء کے آخر میں رپورٹ مکمل کر کے حکومت پاکستان کے حوالے کردی گئی۔ جو کہ حکومت پاکستان کی طرف سے انتہائی خفیہ قرار پائی۔ یہاں اس اہم نقطے کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ حمودالرحمان کمیشن نے پاکستانی جنگی قیدیوں کی جنیوا کمیشن میں دی گئی واضح ہدایات کے باوجود بھارت کی طرف سے دو سال اور چارماہ کی تاخیر کی وجوہات جاننے اور اسے بھی رپورٹ کا حصہ بنانے سے گریز کیا۔ جبکہ اس کی وجوہات میں ہی 1971ء میں پاک فوج کے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے بہت سے حقائق موجود تھے۔ خیرحمود الرحمان کمیشن کی مکمل رپورٹ حکومت کے حوالے کیے جانے کے بعد رپورٹ مرتب کرنے والے معزز جسٹس صاحبان کے گھروں میں تلاشیوں کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔
جسٹس حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کو لے کر پوری قوم میں ایک اضطراب موجود تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اپوزیشن میں شامل سیاستدان بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر لائی جائے۔ لیکن پاکستان کی بقاء کے نام پر یہ رپورٹ منظرعام پر نہ لائی جاسکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تبصرہ نگار یہی سمجھتے رہے کہ غالباً رپورٹ میں سیاستدانوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ اس طرح کے ریمارکس ضرور شامل ہونگے جن کو لے کر ذوالفقار علی بھٹو رپورٹ سامنے لانے کو تیار نہیں حالانکہ تحقیقاتی کمیشن کو اجازت ہی نہیں تھی کہ وہ ان وجوہات کو سامنے لائے جن کی بنا پر 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کی واضح اکثریت اورعوامی لیگ کی خواہش کے باجود ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔ان حالات میں ملک کے اندر سیاسی انتشار اس قدر بڑھ گیا کہ ڈھاکہ میں بلائے گئے اجلاس میں شریک ہونے والوں کی ٹانگیں(تک) توڑ دینے جیسے بیانات زیر گردش رہے۔
حیران کن طور پر سقوط ڈھاکہ کے تقریباً 26برسوں بعد بھارت میں اس کے خفیہ ادارے را کے بھونپوسمجھے جانے والے معروف انگریزی جریدے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے اپنی اگست 2000ء کی اشاعت میں جسٹس حمود الرحمان کمیشن رپورٹ شائع کردی جس کے بعد پاکستان کے اخبارات میں رپورٹ کو لے کر بیانات اور تبصروں کا ایک طوفان برپا ہوگیا۔ جنرل مشرف سے ناراض سیاستدانوں نے رپورٹ کے مندرجات پر تبصرے کرتے ہوئے پاک فوج کے خلاف دل کھول کر بھڑاس نکالی۔ کسی نے بھی اس مسئلے پر غور نہیں کیا کہ پاکستان سے ایک اہم خفیہ دستاویز بھارت کے جریدے تک کیسے پہنچی ؟ علاوہ ازیں اگر مذکورہ خفیہ پاکستانی دستاویز بھارت کے پاس پہلے سے موجود تھی تو بھارتیوں نے اسے جنرل ضیاء الحق کے دور میں سامنے لانے سے کیوں گریز کیا ؟جب کہ ضیاء دور میں بھارتی حکمرانوں کو شدید مشکلات اور ہزہمت کا سامنا رہا۔ خاص کر ایک موقع پر بھارت کی خواہش تھی کہ سویت افواج افغانستان سے بلوچستان پر حملہ آور ہو ں۔ اس سلسلے میں ماسکوکی یقین دہانی پر بھارت میں راجیو گاندھی کی حکومت اور بھارتی فوج نے’’ براس ٹیک‘‘ جنگی مشقوں کی آڑ میں راجستھان سیکٹر سے سندھ پر حملہ آور ہوکر انڈس ہائی وے کو کاٹتے ہوئے کراچی پر قبضے کا منصوبہ بنایا ،لیکن پاکستان کے اندر پاک فوج کی نقل وحرکت سے متعلق بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان پر حملے کے خوفناک نتائج پر مبنی رپورٹس اور جنرل ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کی وجہ سے بھارت اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکا۔
تاہم اب بنگلہ دیش میں جس طرح نوجوان طالب علموں کی بنگلہ دیش کی بانی جماعت عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد کے خلاف تحریک عوامی لیگ کی حکومت کا تختہ الٹنے کا سبب بنی اس نے 1970ء اور 1971ء میں مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے مظالم کے حوالے سے اس تمام پروپیگنڈے کی نفی کردی ہے۔ جس کے تحت بنگالیوں کو پاک فوج کے مظالم سے بچانے کے نام پر بھارتی فوج مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہوئی۔آج بنگالی نوجوانوں کی عوامی لیگ کے خلاف نفرت کا یہ عالم ہے کہ وہ اس جماعت سے وابستہ کسی بھی یادگار یا فرد کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔یوں بنگلہ دیش میں جاری ان واقعات نے 1971ء میں بھارتی فوج کے مشرقی پاکستان پر حملے کو ہی گھناونی سازش ثابت نہیں کیا بلکہ اس حوالے سے پاکستان میں مرتب کی گئی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے مندرجات کو بھی مشکوک بنادیا ہے۔ جس کا حوالے دے کر پاک فوج کے خلا ف گزشتہ نصف صدی سے الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جسٹس حمود الرحمان کمیشن کی طرز پر ایک نیا جوڈیشیل کمیشن قائم کیا جائے جو 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کی از سرنوتحقیقات کرے۔