پاکستان اور پاکستانی

’’میری پارٹی پاکستان ہے‘‘ میرے لکھے حروف میں ’’زردی‘‘ نہیں ۔ملاوٹ نہیں۔ سچ ہے حق کے ساتھ الحاق ہے میرا کالم ’’میثاقِ حق‘‘ ہے۔ ہمارے وجود کی ضمانت ہمارا جوہری پروگرام ہے ۔ اگر دشمن آج خاموش ہے جرات نہیں پاتا حملہ کرنے کی تو صرف ’’ایٹم بم‘‘ کی وجہ سے ۔ ہماری ’’بہادر افواج‘‘  سرحدوں کی محافظ ہی نہیں ہمارے آئین۔ قانون۔ سلامتی ۔ معیشت کی بھی محافظت کا فریضہ نبھا رہی ہیں۔ خواہش ہے کہ دشمن ہمیشہ زیر رہے تو پھر سب کو ذاتی ۔ وقتی مفاد سے الگ ہو کر سوچنا ۔ کام کرنا پڑے گا۔ دشمنی ۔ محبت کے پیمانے صرف پاک دھرتی سے محبت ۔ دشمنی کرنے والوں پر فٹ کرنا پڑیں گے۔ ملکی معیشت کو کھوکھلا کرنے والے کرپٹ عناصر ۔ گروہوں پر گرفت کرنا پڑے گی۔ گروہی۔ انفرادی کچھ بھی حد نہیں رہنی چاہیے۔ اجتماعیت پر پوری توجہ۔ توانائی صرف کرنی پڑے گی۔ قوم ہے تو ملک ہے ادارے۔ جماعتیں ہیں ۔بات۔ترجیح شخصیات سے نکال کر رکھ دیں۔ اداروں کی عزت ۔ قوم کی عزت۔ ملکی تحفظ اولین ترجیح اب بنانا پڑیں گی۔ تماشا گردی ۔ منہ ماری الزام تراشی بند ہو جائے اِس سے بڑا تحفہ قوم کے لیے کیا ہوسکتا ہے ؟؟
’’کتنا اچھا ہوتا‘‘ 
کمال تو کر دکھایا ۔ اتنے لمبے عرصہ کے بعد بغیر کِسی سر پرستی کے اتنا بڑا کارنامہ ’’ارشد ندیم‘‘ نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ شاندار استقبال تو حق تھا۔ اُس کے گاؤں میں جاکر اُس کی حوصلہ افزائی تو سب سے بڑھ کر نمبر لے گئی۔ پر کتنا اچھا ہوتا کہ سادہ استقبال کرتے ۔ بڑا نام ذاتی طور پر ائر پورٹ جاتا پوری قوم کی نمائیندگی ہو جاتی ۔ استقبال اور حوصلہ افزائی ۔ شاندار تقریب سب کچھ بہت درست تھا مگر بہت اچھا ہوتا کہ سادگی کو ملحوظ رکھا جاتا ۔ پیسے بچا کر پوری قوم کو ’’بجلی بلز‘‘ میں نمایاں ریلیف دیدیتے۔ اِس سے بڑا تحفہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ’’ہیرو‘‘ تو ہیرو ہی رہتا ہے ۔ جب تک ’’مقدر کا مالک ‘‘ چاہے۔ پوری دنیا میں ایک بلند آہنگ پیغام جاتا ایک زندہ قوم کے شعور کے استعمال کا پیغام ۔’’خالی پیٹ‘‘کو پوری روٹی ایک ہی مرتبہ کھلانا زیادہ درست ہے یا روٹی کو نوالوں کی شکل میں وقفوں کے بعد بار بار کھلانا؟ بہت اچھا فیصلہ ۔ پر کتنا اچھا ہوتا کہ قوم کو پٹرولیم قیمتوں کا ایک سال کے لیے منجمد کرنے کی نوید سُنادی جاتی منجمد اور وسائل کی فراہمی کا حل درجن بھر کالمز میں قارئین پڑھ سکتے ہیں۔ اربوں روپے کا استعمال تقاریب میں کرنے سے بہتر تھا اور ہے کہ سادگی کو ملحوظ رکھا جائے ۔زندہ اقوام اپنے افعال سے زندہ کہلاتی ہیں اقوال سے نہیں ۔ میرا ’’پرچم‘‘ میری کمزوری ہے میرا وطن میری محبت ہے دو سال پہلے لکھا گیا میرا فقرہ آج زبان زد عام ہے کہ ’’پاکستان ہے تو ہم ہیں ‘‘ (مطبوعہ کالم نوائے وقت)۔
’’آزادی جشن‘‘
اچھا جذبہ ہے جھنڈیاں ۔ باجے ۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹی گاڑیاں ۔ موٹر سائیکلز پر لہراتے ننھے منھے پرچم۔ سبز رنگ کے لباس۔ چوڑیاں ۔ عینک۔ ٹوپیاں ۔ کچھ بھی تو بُرا نہیں سال کسقدر تیزی سے گزر جاتا ہے ہر یادگار موقع آنے پر یہی خیال دل میں اُبھرتا ہے کہ وقت کتنی جلد بیت گیا۔ وقت کا تو کام گزرنا ہے ہمارا کام کیاہے ؟؟ ہم گزر رہے ہیں یا وقت گُزار رہے ہیں ۔ میرا یقین ہے کہ ہم صرف وقت گزار رہے ہیں اگر گزر رہے ہوتے تو آج ہمارا شمار قرضدار ملک میں نہ ہوتا ۔ کرپٹ اشرافیہ میں نہ ہوتا۔ سست الوجود قوم نہ کہلاتے ۔ القابات تو ڈھیر سارے ہیں جو دنیا نے ہم کو دے رکھے ہیں پرسچ کیا ہے گزرنے والوں کے نشانات زمین پر ثبت ہو جاتے ہیں ہمارا آغاز تو ثبت ہے پر بیچ میں کہیں ہم کھو سے گئے ہیں ۔ منزل کا تعین تھا پر درمیان میں نشانات مٹ گئے ہیں ۔ دائیں بائیں ۔آگے پیچھے گھمن گیریاں سی باقی ہیں گمان انتہائی سطح تک اُونچا پر اپنی ذات کے حصار میں ۔ تقاریر ایسی کہ بس ثانیوں میں آنکھوں کے آگے دودھ ۔ شہد کی نہریں بہتی ہوئی نظر آجاتیںمگر ؟؟
’’میں بڑا اہم تھا یہ میرا وہم تھا‘‘
نامور فاتح ۔ کروڑوں میلوں پر پھیلی سلطنتوں کے مکمل مالک عظیم الشان بادشاہ سب چھوڑ چھاڑ چلے گئے ۔ قارون کے خزانے رہ گئے وہ خالی ہاتھ رخصت ہو گیا۔ ایک انگلی پر تاج و تخت تاراج کرنے والے پیوند خاک ہوگئے ۔ جنگی ہتھیار ۔ گھوڑے ۔ سپاہ رہ گئی۔ جسم مٹی بن گیا نام کِسی کا بلند ہوگیا کوئی گندے نالے کی بدبو مانند بلبلہ بن گیا۔ یہ ’’کُرسی‘‘ تو رہنے والی ہے پر اِس پر بیٹھنے والے رہنے والے نہیں ۔ یہ سب کے تصرف میں ہے مگر کوئی تازیست اِس کا مالک نہیں ۔ کیونکہ دنیا دھوکہ ہے انسان فانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس کو موقع ملا اُس نے کیا کمایا ؟ کِس نے اپنے لوگوں ۔ رعیت کے لیے کتنا نیک اجر کمایا ؟ کِس نے اپنی پوزیشن کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا ؟ سوال تو ہوتے ہیں ۔ ایک دن جواب دینا ہی پڑتا ہے۔ اب اُس دن کے لیے کتنی تیاری ہے ؟ صرف ’’اصل مالک‘‘ جانتا ہے اور وہ فرد جس کے سپرد امانت کی گئی وہ اپنی امانت کے استعمال ۔ اُس کی حفاظت میں کتنا مخلص رہا ؟ آخرت تو ہے ہی ’’روز جزا و سزا‘‘۔ دنیا میں بھی جوابدہی تو ہوتی ہے اب کیا پرواہ جب کُل طاقتوں کا واحد مالک ’’سچا رب کریم‘‘ ہے خود ہی کافی ہے جوابدہی کے لیے ہماری کیا مجال؟
’’بطور پاکستانی‘‘
خوش قسمت ہیں ہم لوگ کہ کِسی دن بھی بھوک میں نہیں سوئے۔ کوئی کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو۔ بھوکا نہیں رہتا کیونکہ رزق تو مہربان ’’رحمان۔ رحیم۔کریم‘‘ کے ہاتھوں میں ہے بھلے عصر نو میں کیا معاشی مشکلات ہیں۔ کاروبار گھٹ رہے ہیں پر اتنا علم ہے کہ ایک درمیانی کلاس کا صنعت کار بھی اتنی پسلی رکھتا ہے کہ اولاد کے علاوہ درجن ہا سے زائد اپنے ملازمین کا بھی خوشحال کفیل ہے یہ سب میری پارٹی میرے پاکستان کی عنایات ۔ برکات ہیں ۔ بڑے ممالک سے لیکر چھوٹے گمنام ممالک تک سینکڑوں پاکستانی اپنی فیکٹریاں قائم کر کے لاکھوں ڈالرز کما رہے ہیں ۔ پچھلے دو اڑھائی سالوں سے شروع ہونے والے اِس سلسلہ کو کیا نقل مکانی کہہ سکتے ہیں ؟ جو بیرون ممالک شفٹ ہوئے تھے وہ یہاں اور شفٹ ہونے والے ملک ہر دو جگہ پر روزگار کی فراہمی اور زر مبادلہ کی ترسیل کا بہت بڑاذریعہ بن گئے ہیں یہ شکر نہیں تو کیا ہے ؟؟ سوال یہ ہے کہ خوشحالی کا منبع کون ہے۔ ظاہر ہے ’’پاکستان‘‘ ہے تو کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اپنی کمائی اپنے وطن کو لوٹانا شروع کریں۔ 
کوئی شک نہیں احتساب بنا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے پوری قوم بالشمول تاجر ۔ صنعتکار برادری کا یہی موقف تھا کہ ’’بجلی بلز‘‘ میں کمی لائے بغیر ترقی ممکن نہیں ۔ حکومت کو ادراک ہے اور اِس پر کام بھی ہو رہا ہے خوشی ہوئی سُن کر بطور پاکستانی فرض ہے کہ دوکاندار ۔ تاجر خالص کمائی کے تصور کو فروغ دیں ۔ ملاوٹ ۔ جھوٹ ۔ مکر۔ کرپشن اور مجرم جرائم سے توبہ کرلیں ۔ دونمبر مال بنانا ۔ منگوانا ۔ بیچنا بند کر دیں ۔ ڈاکٹرز ۔ اساتذہ اپنے علم کو قوم کے لیے نافع بنا دیں ۔ والدین اولاد کی تربیت سے کوتاہی نہ کریں ۔ اپنے ہنر ۔علم۔ وسائل۔ اختیار کو اپنے وطن کے لیے خالص کریں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

’’پاکستان تحریک احتجاج‘‘

آواز خلق فاطمہ ردا غوری  زمانہ قدیم میں بادشاہ و امراء اپنی ذاتی تسکین کی خاطر تعریف و ثناء کے پل باندھنے والے مداح شعراء ...