ہمارے ہاں حکومتیں اتنی تیزی سے آتی جاتی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کس کا گناہ کس کے سر گیا۔ جیسے ادب کی ترقی کے لیے کام کرنے والے ادارے کے متنازعہ ڈائریکٹر اور بھارتی مشاعروں سے شہرت پانے والے شاعر جس کی شاعری میں سارا مال چوری کا ہے جب سے تعینات ہوا ہے ادارے کا مسلسل ذاتی استعمال کیے جا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسی طرح آج تک برطانوی سامراج کے چنگل میں تڑپتا چلا آتا ہمارا نظام تعلیم ایک نئی وباء کے ہاتھوں گرفتار ہو چکا ہے، جس کا نام ہے پی ایچ ڈی مافیا۔ ڈگریوں کی بنیاد پر تنخواہ اور گریڈ میں اضافہ اور ملازمت کے مواقع کی توسیع بظاہر کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں لیکن اب تو یہ ڈگریاں محض دنیاوی مفادات و مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہی بن کر رہ گئی ہیں ۔
ایم اے اور ایم فل کے سٹوڈنٹس کو غزل اور نظم کا فرق نہیں معلوم، بنیادی اور روزمرہ کے آسان ترین الفاظ کا تلفظ درست نہیں اور تھیسز کا یہ عالم ہے کہ مجھے ایک کالج سے بی ایس کی طالبہ کا فون آیا کہ سر مجھے آپ کی ادراکی تنقید پر تھیسز الاٹ ہوا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کے حالات ِ زندگی درکار ہیں۔ اس نے بتایا کہ میرا تھیسز تقریباً مکمل ہے اور اب مجھے جلد تھیسز جمع بھی کروانا ہے۔ میں حیران رہ گیا کہ یہ نئی تھیوری ہے اور ابھی بڑے بڑے طرم خانوں کے پلے نہیں پڑ رہی تو ایک بی ایس کی طالبہ اس پر کیا کام کرے گی۔ میں نے ایک دوست اور سینئر پروفیسر صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کی اردو تھیسز اپروو کرنے والی کمیٹی میں سارے کے سارے وہ لوگ ہیں جو دن رات دعا مانگتے ہیں کہ دنیا میں کوئی جینوئن شاعر ادیب زندہ نہ بچ جائے اور فرحت عباس شاہ کو تو وہ ہتھیں مارنا چاہتے ہیں۔ تمہاری یہ کتاب بی ایس لیول کے تھیسز کے لیے اپروو ہی اسی لیے کی گئی ہے کہ بنیادی لیول پہ غیر معیاری کام کروا کے اسے کِل کردیا جائے اور آئندہ ایم فل یا پی ایچ ڈی لیول کا کام نہ کیا جاسکے۔ میں نے تشویش زدہ ہو کر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو زبان و ادب کے ڈائریکٹر محمد کامران کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ فکر نہ کریں طالبہ کو تھیوری کا تعارفی سطح کا تھیسز دیا گیا ہے اور اس کا موضوع ہی ’’ادراکی تنقیدی تھیوری ایک تعارف‘‘ ہے۔ انشاء اللہ اس کے بعد اس پر ہم ایم فل کا معیاری مقالہ لکھوائیں گے۔ محمد کامران پہلے ہی اس تھیوری پر ایک شاندار مضمون لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے بطور صدرشعبہ اور بطور ڈائریکٹر ہمیشہ خوش اسلوبی اور دیانت داری سے اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ البتہ اسی شعبے سے وابستہ ہمارے قابل صداحترام مدرس ڈاکٹر صاحب سے ایک ایسی حرکت سرزد ہوئی ہے کہ لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ موصوف نے ثاقب نفیس کی محفوظ کی ہوئی اور ترتیب دی ہوئی کتاب ’’ اکبر بنام اقبال‘‘ (ایک صدی کے بعد 133 خطوط کی دریافت) اپنے نام سے چھاپ لی ہے اور اس پر مرتب تک لکھنا گوارا نہیں کیا۔ اگرچہ مدرسین کی طرف سے ایسی علمی بدیانتی پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن پہلے یہ باتیں بپلک نہیں ہوتی تھیں، اب چھپائے نہیں چھپتیں۔ امید ہے وائس چانسلر اس سلسلے میں ضرور کوئی تادیبی کارروائی عمل میں لائیں گے کیونکہ یہ ظلم صرف ثاقب نفیس کے ساتھ ہی نہیں بلکہ علامہ اقبال کے ساتھ بھی ہوا ہے کہ انہوں نے امانت جس خاندان کے سپرد کی تھی مدرس موصوف نے ان سے چھین کر اپنے نام کرلی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے اسی ادارے اردو زبان و ادبیات میں تحقیقی بدیانتی کی ایک اور واردات بھی سامنے آئی ہے جوکہ مدرسین کے ہیرو محقق اورنقاد جس کی پہچان بدیسی تھیوریوں کی براستہ ہندوستان پاکستان میں امپورٹ ہے کی نگرانی میں ایم فل کے ایک طالب علم کے تحریر کردہ مقالے کی صورت میں ہے۔ مقالے کا موضوع ہے، ’’اکیسویں صدی میں اردو غزل کی مزاحمتی تشکیل‘‘ جس میں درجنوں حقیقی اور نظریاتی مزاحمتی شعراء کو نظرانداز کرکے اسلام آباد کے معروف شاعر جن کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ دربار سرکار سے وابستہ رہے ہیں اور دوسرا لاہور کے شاعر جس کی پہچان شعر چوری ہے، کو بطور خاص شامل کیا گیا ہے جسے ادبی و علمی حلقوں میں مزاحمتی ادب کی تاریخ کو مسخ کرنے کی مذموم سازش قرار دیا جارہا ہے۔ اس علمی بدیانتی نے مقالے کے طالب علم، نگران اور مقالے کو پاس کرنے والوں کی کریڈیبلٹی پر سوالیہ نشان تو دھرا ہی ہے لیکن ایک اور بھی شبے کو تقویت ملی ہے کہ فلسطین سے لیکر کشمیر تک دنیا بھر میں مذاحمتی ادب کے خلاف سامراجی سازشی تناظر میں لکھا جانے والا یہ مقالہ بالکل صیہونی واردات سے مماثل ہے جو قوموں کے اندر گھس کر خود انہی کے خلاف عمل پیرا رہتے ہیں۔ مزاحمتی ادب نے دنیا بھر کے ظالم سامراج کے خلاف ایک ایسے ہتھیار کا کام کیا جس کو تلف کرنے کے لیے ہر سطح پر ایسی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ مزاحمت کرنے والوں کی جگہ مفاہمت کرنے والوں کو مزاحمتی شاعر کے طور پر پیش کرنا مزاحمتی شاعروں کا تشخص اور مزاحمتی شاعری کی قوت ملیامیٹ اور تاریخ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حیرت ہے کہ تھیسس کو پاس بھی کردیا گیا اور کسی ذمہ دار نے اس کھلے تحقیقی ظلم کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
دوسری طرف مجلس ترقی ادب کی طرف سے ہونے والے یوم آزادی مشاعرے کے دعوت نامے پر وزیر اعلٰی محترمہ مریم نواز کی تصویر لگا کے ، وزیر ثقافت و اطلاعات کو مہمان خصوصی بنا کے اور ایڈیشنل سیکرٹری سلیم ساگر کو شامل کرکے لاہور کے حقیقی اور سینئر شعراء کی جگہ تمام ایسے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جن سے مجلس ترقی ادب کے متنازعہ ڈائریکٹر کے ذاتی اور مفاداتی رشتے ہیں۔ اس مشاعرے میں بدنام زمانہ ولگر شاعری کے ذریعے یونیورسٹیوں کا ماحول ناپاک کرنے والے شاعروں کو حکومت پنجاب کے جھنڈے تلے مشاعرہ پڑھوا کر ان کی فحش گوئی کو سرکاری سرپرستی کا تاثر دے کر ماحول کو آلودہ کرنے کے لیے بڑی صفائی سے سند حاصل کی گئی ہے۔
لاہور کے سرکاری اداروں کی روایت رہی ہے کہ سرکاری پروگراموں میں کسی طرح کی گروہ بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شعراء اور ادباء کو ہمیشہ میرٹ پر نمائندگی دی جاتی ہے۔ لیکن مجلس ترقی ادب کے موجودہ ڈائریکٹر کی پہچان ہی جوڑ توڑ اور جتھہ بندی ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ وہ پوری پنجاب حکومت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال میں لے آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب حکومت نگران حکومت کی ان باقیات کی بدنامی مفت میں اپنے سر لینے کی پوزیشن میں ہے؟