جمعۃ المبارک 10 صفر المظفر1446ھ ‘ 16 اگست 2024ء

سٹیٹ بنک نے 628 افراد کو 2200 ارب روپے بلاسود قرضے دئیے، نام نہیں بتا رہا۔
اگر یہ نام دنیا کے سامنے  لانا ہوتے، ان چہروں کو بے نقاب کرنا ہوتا تو پھر یہ کام سٹیٹ بنک قرضے جاری کرنے سے پہلے کرتا۔ کیونکہ یہ کسی کا ذاتی بنک نہیں ہے یہ قومی خزانے کا امین ہے۔ کوئی امانت دار کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی ایمانداری مشکوک ہو۔ اس لیے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں شاید ایمانداری کا پیمانہ ہی علیحدہ ہے۔ یہاں سرکاری رقم کو، جو عوام کی اور ملک کی امانت ہوتی ہے، سٹیٹ بنک مال مفت کی طرح بانٹتا ہے۔ بنا کسی گارنٹی کے بنا کسی منافع کے اربوں روپے کے قرضے جاری کرتا ہے۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اندھا بانٹے ریوڑیاں والی مثال دی جاتی ہے۔ اب یہ بات میڈیا میں آنے پر تو لوگ چاہیں گے کہ ان کی امانت میں خیانت کر کے جن کو نوازا گیا ہے وہ کون ہیں۔ مگر سٹیٹ بنک نے اس بارے میں ’’ایک چپ سو سْکھ ‘‘ والے محاورے پر عمل کرنا مناسب سمجھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اس مرکزی بنک نے 628 افراد کو جو ظاہر ہے نہایت اعلیٰ خاندانوں والے ہوں گے۔ مالی طور پر بھی بہت مضبوط ہوں گے۔ ورنہ اربوں روپے یوں تو نہیں دئیے جاتے۔ تگڑی سفارش اور بھرپور دبا? پر ہی انہیں یہ قرضہ دیا جاتا ہے۔ وہ بھی ’’چوپڑی اور  دو دو‘‘ یعنی بنا کسی سود کے۔ اس کے باوجود  یہ لوگ قرضے واپس نہیں کرتے اور دیوالیہ ہونے کا حلف نامہ جھوٹا جمع کرا کے رقم معاف کرا دیتے ہیں۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اب بھی یہی ہو گا اور یہ 2200 ارب روپے بھی یونہی کھوہ کھاتے جائیں گے۔ نہ پہلے کبھی قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والوں کے نام شائع ہوئے ہیں نہ اب ہوں گے۔ یوں لوگ ان سے بے خبر رہیں گے اور یہ پردہ نشیں اسی طرح موج کرتے رہیں گے۔ عوام ان کے دیدار سے محروم رہیں گے کیونکہ قرضہ لینے اور دینے والے دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یہ بھلا ایک دوسرے کو بے نقاب کیسے کریں۔ 
٭٭٭٭٭
کورٹ مارشل کے معاملے سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ بانی پی ٹی آئی۔ 
معلوم نہیں خان اس طرح ہر بات پر یوٹرن کیسے لے لیتے ہیں جو ان کے نزدیک پہلے بدترین جرم تھا مگر آج جائز ہے۔ اب یہی دیکھ لیں جنرل فیض کے کورٹ مارشل کی خبروں کے بعد کپتان نے کتنی تیزی سے ان کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ میرا ان سے کوئی لینا دینا نہیں نہ ان سیکوئی سیاسی تعلق تھا۔ سب جانتے ہیں کہ کپتان تو دل و جان سے ان کو چاہتے تھے اور وہ انہیں۔ آج یہ حال ہے کہ قیدی کے پسینے چھوٹ رہے ہیں اور وہ علیک سلیک سے بھی انکاری ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کوئی بھی وفادار نہیں ہوتا۔ جو بھی ہو اپنے مطلب کا یار ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی والے کل تک جنرل (ر) فیض کا نام چومتے اور اسے تعویز بنا کر رکھتے تھے۔ آج مرشد کے یوٹرن کے بعد ان تعویزوں کو پانی میں بہا رہے مٹی میں دبا رہے ہیں۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ
 کیا کرتے تھے بات زندگی بھر ساتھ دینے کی
مگر یہ حوصلہ ہم میں ’’جیل جانے سے پہلے تھا‘‘
اب قیدی سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے جو ہر روز اپنا پالیسی بیان بھی یوں بدلتا ہے جیسے والدین  بچوں کے کپڑے بدلتے ہیں۔ ورنہ یہاں تو محب و محبوب والا معاملہ رہا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ 
پچھلے برس تھا خوف تجھے کھو نہ دوں کہیں 
اب کے برس دعا ہے ترا سامنا نہ ہو
اب تو نجانے اور کس کس سے دامن چھڑانے کے بیانات آئیں گے بقول فیصل واؤڈا ابھی تو کئی اور لوگ بھی شامت اعمال کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی قیدی کا شاید یہی بیانیہ سامنے آئے گا کہ ہمارا ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ 
٭٭٭٭٭
سعودی شہری کا 53 شادیاں کر نے کا ریکارڈ۔
سب سے پہلے تو 21 توپوں کی سلامی دی جائے اس امت مسلمہ کے مرد جری کو جس نے سعودی عرب جیسے ملک میں جہاں شادی کا سارا خرچہ مرد اٹھاتے ہیں برصغیر کے بے شرم مردوں کی طرح بیوی یا سسرال کے مال پر عیش نہیں کرتے۔ ان کے جہیز سے گھر نہیں بھرتے۔ اس خوبصورت ریکارڈ پر جو اسے ملا ہے۔ کئی مالدار مرد میدان بھی رشک کرتے ہوں گے کئی تو مارے حسد کے جل بھن کر کباب ہو چکے ہوں گے کہ اس شخص کو اس صدی کا سب سے کثیر الازدواج  شخص قرار دیا گیا ہے۔ اس نے 20 سال کی عمر میں اپنے سے بڑی خاتون سے شادی کی۔ بس پھر کیا تھا، کبھی مڑ کر نہ دیکھا اور شادیوں کی لائن لگا دی۔اب  اس نے بالآخر 62 سال کی عمر میں 53 ویں شادی کر کے  یہ سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی شادیاں کرنے کا موقع مل سکے۔ اس مرددانا نے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے اپنے سے کچھ بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرنا بہتر ہو تا ہے۔ ہمارے ہاں یہ مناسب خیال نہیں کیا جاتا اور عام طور پر لڑکا بڑی اور لڑکی کم عمر کی پسند کی جاتی ہے۔ البتہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کم عمر لڑکی کم از کم بی اے پاس ہو امور خانہ داری کی بھی ماہر ہو۔ گونگی اور بہری بن کر رہنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر چاند سی ہو۔ اب یہ تمام صفات کسی ایک لڑکی میں کہاں سے جمع ہو سکتی ہیں خود لڑکا دیکھیں تو لگتا ہے بال کالے کراتا ہے۔ منہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بد زبان، بد لحاظ بدتمیز بھی ہو تو کہتے ہیں بس ذرا مزاج کا تیز ہے۔ اگر یہی خوبی لڑکی میں ہو تو توبہ توبہ کر کے رشتے سے انکار ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں لڑکیوں کے ساتھ اگر والدین لڑکوں کی بھی تربیت کریں تو کوئی گھر خراب نہ ہو۔ مگر کیا کیا جائے کہ لڑکے والوں کو بہو نہیں مفت میں کام کرنے والی ملازمہ کی ضرورت ہے جو شادی کی صورت میں  لاکھوں کا جہیز بھی ساتھ لے کر آتی  ہے۔ 
٭٭٭٭٭
محکمہ موسمیات نے 18 اگست تک شدید بارش اور سیلاب کا الرٹ جاری کر دیا۔
جب سے محکمہ موسمیات نے اطلاع دی ہے بلکہ خبر یہ سنائی ہے اس سے لوگوں کی رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی ہو گی جو ہر سال سیلاب کا مقابلہ کرتے کرتے اب تو تنگ آ چکے ہیں۔ اب خبر یہ ہے کہ 14 تا 18 اگست تک ملک بھر میں خلیج بنگال اور بحیرہ عرب سے اٹھنے والی مون سون ہوا?ں کی وجہ سے بارش کا ایک بھرپورسپل ہمارے سروں پر برسنے کو تیار ہے۔ ابھی تک تو صرف ٹریلر ہی چلے تھے جس نے کئی علاقوں میں آفت مچا رکھی ہے۔ اب یہ نیا سپیل خدا جانے کیا قیامت ڈھائے گا۔ خدا کرے حالات قابو میں رہیں۔ غریب پہلے ہی حالات سے تنگ ہیں اب یہ بلائے ناگہانی تو بقول غالب 
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام 
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
 والا معاملہ نہ بن جائے۔ پہلے ہی سیاسی پنڈت ستمبر کو ستمگر قرار دے کر اپنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں۔ اب یہ مون سون بھی ویری سون آ  کر اپنے پنجے تیز کر کے ہماری طرف لپک رہا ہے۔ دریا، ندی نالے پہلے ہی بپھرے ہوئے ہیں۔ امدادی کاموں میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ اب اگر سیلاب آتا ہے تو یہ آمدورفت نقل و حمل کو بھی مشکل بنا دے گا۔ خلیج بنگال اور بحیرہ ہند کی طرف سے جب بھی کوئی ہوا آئی وہ طوفان بن کر ہی چھائی ہے۔ ہاں البتہ اس وقت بحیرہ عرب سے  ٹھنڈی ہوائیں آ رہی ہیں۔ ورنہ معاشی بدحالی اور آئی ایم ایف کی غلامی نے تو ہم پاکستانیوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ اوپر سے اب موسمی خلفشار اور سیاسی انتشار بھی عروج پر ہے۔ گویا کہیں سے بھی بچ نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ اوپر سے پے درپے سیاسی اور موسمی پیشینگوئیاں سچ ہوں یا نہ ہوں۔ پریشانی میں اضافہ ضرور کر دیتی ہیں۔  حکمران اتحاد توجہ دے کر قبل از وقت اقدامات (حفاظتی اقدامات) کر کے سیلاب اور سیاسی انتشار سے بچنے کی راہ نکالے ورنہ ہو سکتا ہے  جلد  ہی ان  حکمرانوں کو اپنے نکلنے کے لیے راہیں تلاش کرنا پڑیں۔۔۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن