وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہمیں ماضی کو بھول کر مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ مہنگائی اور بجلی کے نرخوں میں کمی اور ملک کی معاشی ترقی کیلئے اپنا خون پسینہ بہا دوں گا۔ نوجوان فسادی اور انتشاری قوتوں کے آلہء کار نہ بنیں‘ ملک دشمنوں کی ڈیجیٹل دہشت گردی کا سچائی سے مقابلہ کریں۔ گزشتہ روز یوم آزادی کے حوالے سے منعقدہ خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے قوم کو یوم آزادی کی مبارکباد دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا ہے‘ ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں ہمارے اسلاف نے قربانیاں دیکر یہ ملک حاصل کیا۔ میں ان قائدین‘ غازیوں اور شہیدوں کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے وہ کام کر دکھایا جس نے خطے کی نہ صرف تاریخ بلکہ جغرافیہ بھی تبدیل کر دیا۔ شہبازشریف نے مزید کہا کہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا‘ ملک کے بیٹوں نے قوم کو سنوارا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ ہمارا کوئی دشمن پاکستان کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔ پاکستان اسی طرح قائم و دائم رہے گا‘ آج ہمیں بہرصورت فیصلہ کرنا ہے کہ قرضوں اور کشکول والی زندگی گزارنی ہے یا قائداعظم محمدعلی جناح اور علامہ اقبال کے فرمودات والی۔ وزیراعظم کے بقول امیر اور غریب کا الگ الگ پاکستان نہیں ہونا چاہیے۔ وہ جلد پاکستان کے معاشی پروگرام کا اعلان کرینگے۔ آج ہمیں اپنی قسمت اور غربت کو خوشحالی میں بدلنا ہوگا اور ملک کو عظیم بنانا ہوگا۔
شہبازشریف کا کہنا تھا کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے بغیر ملک کی صنعت‘ زراعت اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت بجلی کے بلوں میں کمی پر کام کر رہی ہے اور چند دنوں میں اسکے نتائج سامنے آجائیں گے۔ قوم کو بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے خوشخبری ملے گی کیونکہ اس کے بغیر ہماری معیشت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دشمن پاکستان کی ترقی روکنے کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے جو ہماری جوہری طاقت اور ناقابل تسخیر دفاع سے خائف ہے۔ چنانچہ اب وہ ڈیجیٹل دہشت گردی کا ہتھیار استعمال کرکے پاکستان کے نوجوانوں کے ذہنوں پر جھوٹ مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انکے بقول شعور اور آگہی انتشار نہیں‘ ترقی‘ خوشحالی اور امن لاتی ہے اور دلوں کو جوڑتی ہے۔ آج ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر دن رات محنت کریں گے تاکہ آئندہ یوم آزادی پر ہمیں غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل درپیش نہ ہوں۔
یہ مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ بانیان پاکستان اقبال و قائد نے انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے ہوئے، اقتصادی محرومیوں اور مذہبی آزادیوں پر قدغنوں کا شکار برصغیر کے مسلمانوں کو اس غلامی سے نجات دلانے کا خواب دیکھا‘ عزم کا اظہار کیا اور پھر دوقومی نظریے کی بنیاد پر آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر 23 مارچ 1940ء کو منٹوپارک لاہور میں قرارداد لاہور منظور کرکے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے پاکستان کی شکل میں ایک الگ خطہ ارضی کی تشکیل کی بے پایاں جدوجہد کا آغاز کیا جو پرامن جدوجہد کے نتیجہ میں سات سال کے عرصے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور ایک آزاد و خودمختار ملک خداداد کا قیام عمل میں آیا۔ مگر ہندو اور انگریز کے ٹوڈی ساہوکاروں‘ استحصالی طبقات اور جاگیرداروں کو یہ تقسیم گوارا نہیں تھی جنہوں نے ہندوستان کی تقسیم کو بادل نخواستہ قبول کرکے خود کو پاکستان کا شہری بنایا مگر انکے اذہان ہندو اور انگریز کے ودیعت کردہ استحصالی نظام کے ساتھ ہی وابستہ رہے اور انکے دل بھی اس نظام کیلئے دھڑکتے رہے۔ قیام پاکستان کی عظیم جدوجہد کا مقصد تو اقبال و قائد کی امنگوں‘ آدرشوں کے مطابق پاکستان کی شکل میں جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل تھی جس میں نہ صرف مسلمانوں کو مذہبی آزادیاں حاصل ہوں بلکہ انہیں ساہوکارانہ استحصالی نظام سے بھی نجات مل جائے اور انکی بھی زندگیاں خوشحالی سے ہمکنار ہو جائیں۔
بانی پاکستان قائداعظم قیام پاکستان کے بعد مزید کچھ عرصہ حیات رہتے تو یقیناً آزاد‘ خودمختار‘ جمہوری اسلامی فلاحی پاکستان کی سمت کا ٹھوس بنیادوں پر تعین کر جاتے مگر وہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی اپنی حیات جاوداں کی طرف روانہ ہو گئے جس کے بعد استحصالی نظام کی ذہنیت رکھنے والے ہندو اور انگریز کے ٹوڈیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے پاکستان کو بانی پاکستان قائداعظم کے متعین کردہ راستوں سے ہٹانے کا عمل شروع کر دیا اور بالآخر ملک کو اس استحصالی نظام کی جانب دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے جس سے نجات کیلئے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور آج ہم قیام پاکستان کے 77 ویں سال کے آغاز پر بھی اسی استحصالی نظام کے شکنجے میں جکڑے نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کو یاد کرکے بانیان پاکستان کی عظیم محنتوں کو ضائع ہوتا دیکھ کر خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ قوم کو آج آئی ایم ایف کے ناروا قرضوں‘ ملک کے سنگین توانائی کے اور اقتصادی و مالی بحرانوں اور انکی بنیاد پر قوم کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کی شکل میں جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے‘ یہ سب ساہوکارانہ استحصالی نظام ہی کا شاخسانہ ہے جس سے ملک و قوم کو خلاصی دلانے کے ذمہ دار حکمران اشرافیہ طبقات ہی ان ساری خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔
آج عوام پر جس بے رحمی کے ساتھ بجلی‘ پانی‘ گیس کے بل بڑھا کر انکے زندہ رہنے کی آس تک ان سے چھینی جا رہی ہے‘ جس طرح آئی ایم ایف کے لیئے پاکستان کی معیشت کو نرم چارہ بنا کر اسکی غلامی کے شکنجے کے آگے پھینکا گیا ہے اور جس سفاکی کے ساتھ توانائی کی نجی کمپنیوں کو قومی خرانے پر ڈاکہ مارنے کی کھلی سہولت دی گئی ہے جس سے بجلی کے بل عام آدمی کے پورے مہینے کے بجٹ سے بھی تجاوز کر گئے ہیں‘ یہ سب ان استحصالی طبقات کی پالیسیوں کا ہی کیا دھرا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے مقاصد کو شروع دن سے ہی گہنا دیا تھا اور آج بھی وہ بے بس و مجبور عوام کو زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
اصولی طور پر تو یوم آزادی پر ہمارے حکمرانوں کو عوام پر مسلط استحصالی نظام سے انہیں نجات دلانے اور ملک کو بانیان پاکستان قائد و اقبال کے تصور کردہ اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی معاشرے سے ہمکنار کرنے کا عہد کرنا چاہیے تھا جس کے بغیر عوام کو خوشی اور خوشحالی کا کوئی لمحہ میسر ہی نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے یوم آزادی کی تقریب میں عوام کو بجلی کے نرخوں میں کمی کی جلد خوشخبری سنانے کا جو عندیہ دیا ہے وہ جماعت اسلامی کا دھرنا ختم کرانے کیلئے اسکے ساتھ کئے گئے معاہدے کا ہی حصہ ہے۔ اگر وہ اس اعلان کو جلد عملی جامہ پہنا دیتے ہیں تو یقیناً یہ بھی خوش آئند ہوگا تاہم آج ملک اور عوام کے مہنگائی کے مسائل کی سنگینی کا بلوم برگ کی حالیہ رپورٹ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق پاکستان میں مہنگائی اب بھی تمام ایشیائی ملکوں میں سب سے زیادہ ہے جبکہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ملک میں بجلی کے بھاری بلوں کی بڑی وجہ ان پر ایف بی آر کی جانب سے لگائے گئے بالواسطہ ٹیکسز ہیں جو برقرار رہتے ہیں تو حکومت کی بجلی کے نرخ کم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح آئی پی پیز کے ساتھ اگلے پچاس سال تک کے طے کردہ معاہدوں کی موجودگی میں بجلی کے نرخ مزید بڑھ تو سکتے ہیں مگر کم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس تناظر میں حکومت کو عوام کو محض لالی پاپ دینے کی بجائے استحصالی نظام سے نجات دلانے کے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد پورے ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔