اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ کے مالک کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا جبکہ سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی کو توہین عدالت کے جاری کیے گئے نوٹس واپس لے لیے گئے۔ عدالتی حکمنامے میں قرار دیا گیا ہے کہ وزیراعظم آفس کی بے توقیری نہیں ہونی چاہیے، وزیراعظم آفس کو دیکھنا چاہیے کہ تجاویز عوامی مفاد میں ہیں یا ذاتی مفاد میں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالتی فیصلوں پر تنقید کریں لیکن پراپیگنڈا نہ کریں، جھوٹ بولنا شروع کر دیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے ہمیں یہ خبر آئی ہے، ارے بھائی کہاں سے خبر آئی، جھوٹ بولتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی، بس بہت ہو گیا ہے، دنیا میں اگر کہیں اور ایسا جھوٹ کا کاروبار ہوتا تو لوگوں کی جیبیں خالی ہو جاتیں، ہم نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا اب نہیں کریں گے، اگر ہم نے کچھ غلط کیا تو عدالت میں کھڑے ہو کر بتائیں ہم نے کیا غلط کیا، ایسا نہ ہو ہمیں کوئی سخت حکم دینا پڑے، ہم نے بہت برداشت کر لیا، اب برداشت نہیں کریں گے، آئینی اداروں کا احترام ہونا چاہیے۔ عدالت نے ڈائینو ویلی اور پائن سٹی سے متعلق خیبرپی کے حکومت سے تفصیلات طلب کر لیں۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ عدالت میں فریقین نے رضامندی ظاہرکی تھی کہ نیشنل پارک ایریا سے ریسٹورنٹس منتقل کردیں گے۔ مونال ریسٹورنٹ کے مالک نے سپریم کورٹ کیخلاف مہم چلائی اورکہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے ملازمین بے روزگار ہوگئے، بادی النظر میں لقمان علی افضل کا عدلیہ مخالف مہم چلانا توہین عدالت ہے۔ عدالت نے وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا اب نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا اسلام آباد کی زمین سونا ہے، اسلام آباد میں سب سے مہنگی زمین کہاں ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا ای سیکٹر سب سے مہنگا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا ای سیکٹر مہنگا کیوں ہے؟۔ عدالت کو بتایا گیا ای سیکٹر کے سامنے مارگلہ ہے اس لئے مہنگا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا اور جب منصوبے مارگلہ کے اندر بنیں گے تو مزید مہنگے ہوں گے، اب آپ کو وجہ سمجھ میں آئی؟ یہی 'ایلیٹ کیپچر' ہے، ای سیکٹر بنایا کس نے تھا؟۔ وکیل وائلڈ لائف بورڈ نے کہا ای سیکٹر ضیا دور میں بنا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا بس حکم آگیا ہو گا پھر کسی نے دیکھا ہی نہیں یہ قانونی ہے یا نہیں، ایک فون بس آجائے تو یہ کر دیا وہ کر دیا، ملک ایسے نہیں چلے گا، ہم نے مارگلہ میں کمرشل سرگرمیاں روکنے کا کہا نوٹیفکیشن نکلنے لگے، یہاں کہا جاتا ہے مارگلہ میں پودے لگا رہے ہیں، چار دہائی پہلے ایک صاحب آئے اور پیپر میلبری لگاتے رہے، کسی ایکسپرٹ سے پوچھا بھی نہیں گیا ہو گا،مونال کے مالک نے سپریم کورٹ کیخلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا، کہتے ہیں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے، اپنے کسی اور ریسٹورنٹ میں انہیں ملازمت دے دیں، لقمان افضل عدالت نہیں آئے؟ کسی یوٹیوب کو انٹرویو دے رہے ہوں گے۔ ڈی جی گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پیش ہو کر بتایا ہم نے پائن سٹی کو تعمیرات سے روکا یہ سٹے لے آئے۔ چیف جسٹس نے پائن سٹی کے مالک سے استفسار کیا آپ وہاں کیاں بنانا چاہتے ہیں؟۔ کیپٹن ریٹائرڈ صدیق انور نے کہا مجھے معاف کر دیں میں کچھ نہیں بنائوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نام نہیں کام ہی بدل دیں، یہاں تعمیرات نہیں ہو سکتیں، آپ ملکیت رکھیں مگر اس پر تعمیرات نہیں کر سکتے۔