ہمارا دائرہ اختیار ختم کر کے آئین سے بنیادی حقوق نکال دیں، ملک کو ایسے ہی چلائیں: جسٹس اورنگزیب

 اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے لاپتا کارکن فیضان کی بازیابی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آئین کو تبدیل کردیں، بنیادی حقوق اس میں سے نکال دیں اور ملک کو اسی طرح چلائیں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمے میں سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آئین کو تبدیل کر دیں، بنیادی حقوق اس میں سے نکال دیں، ہمارا دائرہ اختیار ختم کر دیں اور ملک کو اسی طرح چلائیں، مجھے نہیں معلوم سٹیٹ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟۔ آپ اس کی گرفتاری ڈال دیں ہم کچھ نہیں کہیں گے مگر ملک کو اس طرح نا چلائیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب  نے کہا کہ وزارت دفاع، وزارت داخلہ، ریاست سب اس سے خوش ہیں، یہ ظالمانہ عمل ہے، اس صورت حال میں آئینی عدالتوں کو کیا کرنا چاہیے؟۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستانی عدالتیں لاپتا افرادکیسز میں کیا کر رہی ہے، یا پھر یہ کہیں دنیا یہاں آئے، سرمایہ کاری کرے اور لوگ مسنگ بھی ہوں گے اور عدالتیں بھی کچھ نہیں کر سکیں گی، وفاقی حکومت کا مطلب وزیراعظم اور وفاقی کابینہ ہے، ذمہ داری آخر کار ایگزیکٹو ہیڈ پر آتی ہے۔ اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواستگزاروں نے صاف ہاتھوں کے ساتھ عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا، عدالت نے کہا کہ انہوں نے صاف ہاتھوں سے درخواست دائر نہیں کی، اس لیے درخواست خارج کر دیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ میں خدمت گزار جج بن جاؤں؟ یہ گندے درخواست گزار ہیں تو ہم ان کی درخواست مسترد کر دیتے ہیں، سمجھ نہیں پا رہا کہ آپ ہمیں کس طرف لے کر جا رہے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہی مجھے بتا دیں کہ کیا کرنا چاہئے؟ حکومت اگر اسے جبری گمشدگی کا کیس کہتی ہے تو دیکھے کس کے کہنے پر ہوا یہ؟ پہلے جس بنچ میں کیس تھا انہوں نے لکھا ہے یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے، حکومت کو اس معاملے پر اغواکاروں کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا کہ یہ تو ہمیں نہیں پتا کہ اغوا کار کون ہیں؟۔ جج نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ایک ساتھی جج نے سخت آرڈر کیا تو حکومتی پروپیگنڈا مشینوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا، میں اس کیس میں آرڈر پاس کروں گا۔

ای پیپر دی نیشن