غزہ میں قبرستان کی جگہ ختم ہونے لگی، قبروں کے اوپر دوسری قبریں بنائی جا رہی ہیں

تازہ کھدی ہوئی قبروں کے لیے چارکول کے بلاکس کو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تنگ مستطیلوں کی شکل میں اوپر تلے رکھتے ہوئے گورکن غزہ کے قبرستان میں معماروں کی طرح کام کرتے ہیں۔

غزہ کی جنگ کو 10 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے اور دیر البلح کے قبرستان میں اتنی زیادہ لاشیں پہنچ رہی ہیں کہ سخت دھوپ میں کام کرنے والے آدمیوں کے پاس دفنانے کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے۔اپنی گورکن ٹیم کی قیادت کرنے والے سعدی حسن کہتے ہیں، "قبرستان اس قدر بھر گیا ہے کہ اب ہم دوسری قبروں کے اوپر نئی قبریں کھود دیتے ہیں۔ ہم نے میتوں کو ایک دوسرے پر ڈھیر کر دیا ہے۔"63 سالہ سعدی حسن 28 سال سے میتوں کی تدفین کر رہے ہیں۔ "غزہ کی تمام جنگوں میں" وہ کہتے ہیں کہ "انہوں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا۔"اس سے پہلے انہوں نے قریبی انصار قبرستان میں تدفین کی بھی نگرانی کی جو 3.5 ہیکٹر (8.6 ایکڑ) پر محیط ہے۔لیکن اب انصار قبرستان مکمل طور پر بھر گیا ہے۔ بہت زیادہ میتیں تھیں۔" انہوں نے کہا جبکہ قبریں کھودنے سے ان کے کپڑے مٹی میں بھر گئے۔اب وہ صرف السعید قبرستان کو سنبھالتے ہیں جس کی 5.5 ہیکٹر قبریں ہیں۔ پھر بھی دو کے بجائے ایک قبرستان کے ساتھ وہ "ہر روز صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک" کام کرتے ہیں۔"جنگ سے پہلے ہمارے پاس ہر ہفتے ایک یا دو جنازے ہوتے تھے، زیادہ سے زیادہ پانچ۔" وہ نماز والی سفید ٹوپی پہنے ہوئے کہتے ہیں جو ان کی لمبی داڑھی سے ملتی ہے۔"اب ایسے ہفتے ہوتے ہیں جب میں 200 سے 300 لوگوں کو دفن کرتا ہوں۔ یہ ناقابلِ یقین ہے۔"

'میں سو نہیں سکتا'
حماس کے زیرانتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق غزہ کی 10 ماہ سے زیادہ کی جنگ میں 40,000 سے کچھ زیادہ ہلاکتیں علاقے کے لوگوں کے ساتھ قبرستانوں پر بھی دباؤ ڈال رہی ہیں۔سعدی حسن روزانہ سانحات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہاتھ میں کدال لیے وہ اپنے 12 کارکنوں کو حوصلہ دیتے ہیں جب وہ روزانہ درجنوں قبریں تیار اور بند کرتے ہیں۔البتہ رات کے وقت بعض باتوں کو بھولنا مشکل ہوتا ہے۔انہوں نے کہا، "بچوں کی اتنی زیادہ پارہ پارہ لاشوں اور مردہ خواتین کو دیکھ کر میں سو نہیں سکتا" اور مزید کہا: "میں نے ایک ہی خاندان کی 47 خواتین کو دفنایا۔"اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کی تعداد کے مطابق سات اکتوبر کے حملے میں 1,198 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔حسن کہتے ہیں، "میں نے بہت سی خواتین اور بچوں کو دفن کیا اور حماس کے صرف دو یا تین لڑکے۔"

"بچے کیوں؟"
اگر اسرائیلیوں کو "(یحییٰ) سنوار سے مسئلہ ہے تو وہ بچوں کو کیوں نقصان پہنچاتے ہیں؟" وہ سات اکتوبر کے حملوں کے مبینہ معمار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں جو اب حماس کے کُلی رہنما ہیں۔

"وہ سنوار اور باقی سب کو مار دیں لیکن عورتوں اور بچوں کو کیوں؟"

تازہ کھدی ہوئی مٹی کے ٹیلے حالیہ تدفین کی یاد دلاتے ہیں۔ سفید کتبوں والی قبروں نے تقریباً تمام دستیاب جگہ کو بھر دیا ہے جبکہ آدمی خالی جگہوں پر نئی قبریں کھودتے ہیں۔یہ ٹیم چارکول بلاکس لے جانے کے لیے ایک انسانی زنجیر بناتی ہے جس کی قیمت ایندھن اور خام مال کی کمی کی وجہ سے غزہ کی فیکٹریوں کے بند ہونے کے بعد سے بڑھ گئی ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا، "جنگ سے پہلے ایک شیکل 0.27 ڈالر کا تھا اور آج 10 یا 12 کا ہے۔"حسن کہتے ہیں کہ گورکن اور چارکول کے بلاکس لے جانے والے مزدوروں کے علاوہ اب شاید ہی کوئی جنازے میں آتا ہو۔ جنگ سے پہلے کبھی کبھی ایک جنازے میں 1,000 تک لوگ ہوا کرتے تھے۔ آج وہ دن ہیں جب ہم 100 لوگوں کو دفناتے ہیں اور انہیں سپردِ خاک کرنے کے لیے 20 بھی نہیں ہوتے۔"ان کے سر کے اوپر اسرائیلی نگران ڈرون کی مسلسل آواز لاشوں کا ایک مستقل سلسلہ پیدا کرنے والے فضائی خطرے کی یاد دلا رہی تھی۔

ای پیپر دی نیشن