ڈھاکہ کی نہایت خوبصورت سرسبزو شاداب زمین کو مغل بادشاہوں نے جنت البلاد یعنی ممالک کی جنت کہا تھا۔ سابق مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کی تاریخ بڑی روشن ہے۔ یہ سرزمین لوگوں کی نگاہ کو اپنی طرف راغب کرنے کی بڑی خاصیت رکھتی ہے۔ پہلے پہل جو لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے وہ ایشین تھے، بعد میں دراوڑ مغربی ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے اور سنٹرل ایشیا سے آرین بھی آئے، بعد ازاں منگولین، عرب، اباسین، آرسینا سے پٹھان، ترک اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت برطانوی بھی آئے لہٰذا یہ علاقہ اپنی زرخیزی اور کلچر کے اعتبار سے منفرد رہا۔
اسی شہر سے آل انڈیا مسلم لیگ نے 30 دسمبر 1906ءمیں جنم لیا، ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام 1923ءمیں نواب سلیم اللہ خان کی کاوش سے عمل میں لایا گیا۔ ڈھاکہ تاریخ کے اعتبار سے بڑا مقتدر شہر ہے، کہا جاتا ہے کہ ڈھاکہ 1608ءمیں آباد ہوا جبکہ مغل بادشاہ نے بنگال پر قبضہ حاصل کیا۔ ڈھاکہ آبادی کے لحاظ سے وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا رقبہ 815 کلومیٹر ہے۔ اسے مسجدوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ ڈھاکہ شہر میں سات مینار والی مسجد بہت اعلیٰ ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہاں متعدد مسجدیں اور گرجا گھر ہیں ستارہ مسجد جو 18ویں صدی میں تعمیر ہوئی۔ بیت المکرم 1960ءمیں تعمیر ہوئی، ہندوﺅں کی عبادت گاہیں بھی تھیں، مندر ڈاکشوار 11ویں صدی میں تعمیر ہوا۔ چرچ سینٹ کیتھڈرل 1677ءمیں امریکن 1627ءسینٹ میری کیتھڈرل 1781ءمیں تعمیر ہوا۔ 1857ءمیں بہادر شاہ میموریل پارک بنا۔ یہ ان شہریوں کی یاد میں تعمیر ہوا جنہوں نے 1857-59ءتک اپنی جانیں قربان کیں، انگریز کی حکومت کا مقابلہ کیا۔ احسن منزل میوزیم یہ دریائے بوڑھی گنگا کے کنارے ایک عمارت ہے جہاں اعلیٰ اقسام کی تاریخی چیزیں موجود ہیں۔ کرزن ہال، لارڈ کرزن کے نام پر ہے۔ 1901ءتک لارڈ کرزن وائسرائے ہند تھا۔ یہ بڑا ہال ہے جو سائنس فیکلٹی ڈھاکہ یونیورسٹی میں استعمال ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ کی عمارت اعلیٰ درجہ کی ہے۔ ڈھاکہ میں نیشنل میوزیم ہے، بوٹانیکل گارڈن ہے، نیشنل پارک ہے، بدھ مذہب کے پیروکاروں کی عبادت گاہ ہے۔
یاد رہے مسجد بیت المکرم کی بنیاد اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے 27 جنوری 1960ءمیں رکھی۔ اگر ہم ڈھاکہ کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 13ویں صدی کے قریب ڈھاکہ (بنگال) میں ترقی ہونے لگی۔ کوئی پانچویں صدی تک (1202-1705) مسلمانوں نے حکومت کی ۔ ڈھاکہ میں بے شمار محلات، مسجدیں اور پارک ہیںیہ 14 اگست 1947ءکو پاکستان کا حصہ بنا۔
16 دسمبر 1970ءکا دن پاکستان کی تاریخ کا زخم دینے والا دن ہے جب پاکستان آرمی کے ایسٹ کمانڈر جنرل عبداللہ نیازی نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ اگر ہمارے سیاسی رہنما جو جمہوریت کا راگ الاپ رہے تھے وہ 1970ءکے عام انتخابات کے نتائج قبول کر لیتے جس میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی تھی تو فوجی ایکشن نہ ہوتا، ملک جدا نہ ہوتا اور مارشل لاءبھی نہ لگتا، اگر سیاسی شعور کو استعمال کیا جاتا تو ڈھاکہ کے لیڈروں سے مذاکرات ہو جاتے، اس قدر قتل غارت نہ ہوتی۔ جب بھارتی فوجیں، مکتی باہنی اور مقامی لوگوں نے ردعمل کیا تو لامحالہ قتل و غارت ہوئی، کس طرح پاکستان ذہن رکھنے والے بنگالی لیڈر، پروفیسراور ڈاکٹرز کو قتل کیا گیا۔ ہمارے ایسٹ کمانڈ جنرل عبداللہ نے 16 دسمبر سے ایک روز قبل بڑھک لگائی تھی انڈین فوج اس کی لاش سے گزر کر ڈھاکہ میں داخل ہو گی اور دوسرے روز جنرل اروڑہ کا استقبال کیا، ہنستے ہوئے بغیر کسی غیرت کے اپنا پستول اور رینک اتارکر اس کے حوالے کر دیئے۔ کاش اس پستول کو اپنے اوپر استعمال کرتے، پھر اروڑہ کو اڑاتے تو آج وہ قوم کے ہیرو ہوتے۔
جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں اعلان کیا تھا کہ آئندہ وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن ہو گا اور 3 مارچ 1971ءکو اسمبلی کی میٹنگ میں ڈھاکہ رکھی۔ جب وہ واپس لاڑکانہ سے آئے تومیٹنگ التواءکا شکار ہو گئی۔ مغربی پاکستان کی جانب سے اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی نے حاصل کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اپنی طاقت کا اظہار کیا۔ یحییٰ خان کی پالیسی سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا۔
مشرقی پاکستان بننے سے پہلے بنگال میں تجارت پر 85% سے زائد ہندو قابض تھے۔ ان کی معاشی حالت اچھی تھی، مسلمان کمزور تھے۔ پاکستان بنتے وقت جو ہندو بھارت چلے گئے وہاں جا کر انہوں نے بنگالی قومیت کا پرچار شروع کیا اور بنگالی قومیت کو ابھارتے رہے۔ اس طرح 60% تعلیمی اداروں میں بطور ٹیچرز بنگال کے ہندوﺅں کی اجارہ داری تھی۔ جنہوں نے طلباءکی بنگالی قومیت کو اجاگر کیا لہٰذا بنگال کے مسلمان مسلم قومیت کو بھول گئے۔ قیام پاکستان سے قبل سرکاری ملازمتوں پر مسلمان نہ ہونے کے برابر تھے۔ پاکستان کے وقت ایک بنگالی مسلمان سروس سروس میں تھا۔ تعلیم مسلمانوں میں کم تھی بلکہ مسلم آبادی والے بنگال میں تعلیم دور تک نہ تھی۔ کتابیں، اردو اور بنگلہ میں کلکتہ سے آتی تھیں اور وہاں سے ہندوﺅں نے پاکستان کو قبول ہی نہیں کیا تھا۔ گویا ہندوﺅں نے پاکستانی بنگالیوں کو مسلم قومیت سے ہٹانے کیلئے کام کیا۔ اس طرح مغربی پاکستان کے خلاف مہم جاری رہی۔
پاکستان مسلم قومیت کی بنا پر حاصل ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ ہم پاکستانی ہیں۔ نہ بلوچ نہ پٹھان ہیں، نہ بنگالی اور نہ پنجابی ہیں۔ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہمیں سوچنا چاہئے۔ جب قائداعظم محمد علی جناحؒ 1948ءمیں ڈھاکہ آئے۔ آپ نے خطاب کیا اور اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ بعد میں بنگالی یا علاقائی زبان کو اختیار کرنے کی سہولت چھوڑی۔ یہاں سے سلسلہ مخالفت کا شروع ہوا۔ بنگالی مسلم پہلے ہی ہندوﺅں کے پروپیگنڈہ سے متاثر تھے، بنگالی شعور بیدار کیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے کی تحریک چلائی۔ اس طرح بنگالی قومیت کو تقویت میسر آنے لگی اور ہندوﺅں نے بنگالی قومیت کے پرچار میں حصہ لیا۔ مشرقی پاکستان میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت تھی۔ 20 فروری 1952ءکو حالات خراب ہوئے کیونکہ ڈھاکہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد کم تھی۔ دفعہ 144 لگ گیا۔ جلوس نکلنے شروع ہوئے اور کئی طالب علم پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ اس طرح مغربی پاکستان کے اکابرین سے مشرقی پاکستان کے لوگ نفرت کرنے لگے۔
اگر ڈھاکہ میں تیسرے ہفتہ اسمبلی کی میٹنگ ہو جاتی، فوجی ایکشن نہ ہوتا، عوامی لیگ کی علیحدگی کی تحریک کمزور ہو جاتی، اتنا نقصان نہ ہوتا۔ گویا جمہوریت پرعمل نہ ہونے کی وجہ سے ہم جمہوریت کی راہ سے بھٹک گئے اور اپنی منزل اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان سے آشنا نہ ہو سکے اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا۔