16دسمبر 1971ہماری تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جس دن اپنوں اور غیروں کی سازشیں رنگ لائیں۔ ہماری کوتاہیاں، غلطیاں، خرابیاں، نادانیاں ، زیادتیاں اور بیوقوفیاں بارآور ہوئیں، سقوطِ مشرقی پاکستان کا المیہ رونما ہوا، پاکستان کی فوج کے کمانڈر لیفٹینیٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے بھارتی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے شکست کی دستاویز پر دستخط کئے، 90 ہزار پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ڈھاکہ کا پلٹن میدان پاکستانی فوج کی ذلت اور رسوائی پر چیخ اٹھا اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی جرا¿ت ہوئی کہ آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں دفن کر دیا گیا ہے۔
16 دسمبر 1971ءکو گزرے 41 سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے لیکن میرے ذہن کے نہاں خانے میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے وابستہ یادوں اور حالات و واقعات کا ایک سلسلہ آج بھی قائم دائم ہے۔ میں اپنی یادوں کو کریدتا ہوں تو مجھے متحدہ پاکستان کی 1962ءکی قومی اسمبلی کی یاد آ رہی ہے۔ اسکا انتخاب بالغ رائے دہی کی بجائے صدر ایوب خان کے جاری کردہ بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت عمل میں آیا تھا۔ اس اسمبلی کے ممبران کی تعداد 150 تھی 75 مشرقی پاکستان اور 75 مغربی پاکستان سے ، اسکے اجلاس راولپنڈی لال کرتی میں واقع ایوب ہال میں جہاں بعد میں نیشنل ڈیفنس کالج قائم رہا اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) کے دفاتر بھی قائم رہے میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ اس اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تو صدر ایوب کی حکومت کی خواہش کے برخلاف مولوی تمیزالدین کو جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا سپیکر چُن لیا گیا۔ چھوٹے قد اور منحنی جسم والے مولوی تمیز الدین فی الواقع بڑی پُروقار، جری اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے وہ اس سے قبل پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے بھی سپیکر رہے تھے۔ جسے گورنر جنرل غلام محمد نے اشتعال میں آ کر توڑ دیا تھا۔ مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے غیر آئینی اقدام کے خلاف سندھ چیف کو (ہائی کورٹ) میں رٹ دائر کی عدالت نے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس محمد منیر نے حکومت کی اپیل کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا۔ جسٹس منیر کا یہ فیصلہ پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ میں نظریہ ضرورت کے تحت دیے جانے والے فیصلوں کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ مولوی تمیز الدین اگرچہ دستور ساز اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے مقدمہ ہار گئے لیکن انہوں نے اپنے لئے ایک بلند مقام ضرور حاصل کر لیا۔ وہی مولوی تمیز الدین 1962 میں قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو گئے۔ مولوی تمیز الدین زیادہ عرصہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے فرائض سرانجام نہ دے سکے کہ انہیں داعی اجل کو لبیک کہنا پڑا۔ انکی جگہ مشرقی پاکستان سے ہی تعلق رکھنے والے لانبے قد اور بھاری بھرکم جسم کے مالک اے کے فضل القادر چوہدری کو قومی اسمبلی کا سپیکر چُن لیا گیا۔ وہ صدر ایوب کی کابینہ میں وزارت پر فائز تھے صدر ایوب کی کابینہ میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے خان عبدالصبور خان اور عبدالمنعم خان بھی کافی عرصے تک وزیر رہے، دونوں حضرات کی شکلیں میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہی ہیں۔ عبدالمنعم خان کو بعد میں مشرقی پاکستان کا گورنر بنا دیا گیا ۔ پاکستان کا ذکر ہو تو شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق کا نام نہ لیا جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ شیر بنگال ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے 23 مارچ1940 کو مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ منٹو پارک لاہور میں قرارداد لاہور جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا اور جس میں برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کیلئے الگ آزاد ریاستوں (STATES) کا مطالبہ کیا گیا تھا پیش کی تھی وہ اس وقت متحدہ بنگال کے وزیراعظم تھے۔
حسین شہید سہروردی 1956-57 میں بارہ تیرہ ماہ پاکستان کے وزیر اعظم بھی رہے۔ انکی قائم کردہ سیاسی جماعت پاکستان عوامی لیگ ایک زمانے میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی تھی۔ مغربی پاکستان میں نوابزادہ نصراللہ خان ، ملک حامد سرفراز ، پیر صاحب مانکی شریف ، غلام محمد خان لونڈخور، خواجہ افتخار، شورش کاشمیری اور ملک غلام جیلانی وغیرہ اسکے قائدین میں شمار ہوتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اسکے اہم رہنما سمجھے جاتے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے آپ کو سہروردی صاحب کا سچا پیروکار قراردیتا تھا۔ سہروردی کی وفات کے بعد اس نے عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی بھارت سے اسکے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں تھے امریکی سفارتخانہ سے بھی اسکے روابط مستحکم تھے جلد ہی اسکے اصلی عزائم سامنے آ گئے۔ اس نے فروری 1966 میں لاہور میں سابق وزیر اعظم پاکستان چوہدری محمد علی کی رہائش گاہ پر منعقدہ آل پارٹیز جمہوری کانفرنس میں اپنے چھ نکات پیش کر کے ایک تہلکہ مچا دیا۔ شیخ مجیب الرحمن کے یہ چھ نکات پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا ایک طرح کا چارٹر تھے۔ 1966ءمیں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سامنے آئے جنوری 1968 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے بھارت کی ایما پر تیار کی جانے والی اگرتلہ سازش کا انکشاف ہُوا، اس سازش کا کُھرا شیخ مجیب الرحمن تک جاتا تھا۔ لیکن شیخ مجیب الرحمن پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں تھا کہ اسکے چھ نکات اب بنگالیوں کی اکثریت کا نعرہ بن چکے تھے۔ فروری 1969 میں صدر ایوب خان نے حزب اختلاف کے رہنماﺅں سے مذکرات کیلئے راولپنڈی میں گول میز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو شیخ مجیب الرحمن نے جو جیل میں تھا کانفرنس میں شرکت کیلئے پیرول پر رہا ہونے سے انکار کر دیا۔ مجبوراً حکومت کو اسکے خلاف مقدمات واپس لے کر اسے غیر مشروط طور پر رہا کرنا پڑا۔22 فروری1969 کو شیخ مجیب الرحمن نے ڈھاکہ ریس کورس میں جلسہ عام سے خطاب کیا تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ وہاں موجود تھے۔ اب وہ بنگالیوں کا غیر متنازعہ لیڈر بن چکا تھا۔ ایوب خان کے ساتھ کانفرنس میں وہ اپنے چھ نکات پر ڈٹا رہا۔ پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان نیشنل عوامی پارٹی کے صدر مولانا عبدالحمید بھاشانی نے بھی اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ صدر ایوب خان کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا اور 20 مارچ1969 کو ملک میں مارشل لاءکے نفاذ کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ بری فوج کے سربراہ جنرل یحیٰ خان نے صدر اور چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ملک کی زمام اقتدار سنبھال لی۔ اگلے سال دسمبر1970 میں عام انتخابات منعقد ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات بنگالیوں کی آواز بن چکے تھے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی (دستور ساز اسمبلی) کی دو کے سوا تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ۔ ان دو نشستوں میں سے ایک پر نور الامین اور دوسری پر راجہ تری دیو کامیاب ہوئے۔ نور الامین 1971ءکے انتہائی پُر آشوب ایام میں جب مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت اور شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور اسکی اسلحہ بردار ذیلی تنظیم مکتی باہنی کی طرف سے علیحدگی اور بغاوت کی تحریک پورے جوبن پر تھی متحدہ پاکستان کے پہلے اور آخری نائب صدر بھی رہے وہ 1948ءمیں قائد اعظم کی وفات کے بعد جب خواجہ ناظم الدین مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے دستبردار ہوکر پاکستان کے گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔1953ءتک وہ اس حیثیت سے کام کرتے رہے 1972ءمیں راولپنڈی ہارلے سٹریٹ کی کوٹھی میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں انکا انتقال ہوا۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ انکی میت کو غسل دلانے کیلئے جو چند افراد وہاں موجود تھے راقم بھی ان میں شامل تھا۔ پھر انکے جنازے میں بھی شمولیت کا موقع ملا۔آج اکتالیس سال گزرنے کے بعد بھی میرے ذہن کے نہاں خانے میں 16 دسمبر1971ءکا دن اسی طرح موجود ہے۔ میں اس دن کو کیوں کر بھول سکتا ہوں ۔ آج بھی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو پاکستان کے دشمنوں کے سینے چاک کرے انکے کلیجے چبا ڈالے۔