امریکہ: مرنیوالے بچوں کی شناخت مکمل، قاتل کے بارے میں تذبذب


نیو ٹاﺅن واشنگٹن (اے ایف پی+ نمائندہ خصوصی) امریکہ کے پرسکون قصبہ کے سکول پر جنونی کے ہاتھوں مارے جانے والے 20 ننھے منے بچوں اور 6 بالغ افراد کی لاشوں کو نکال لیا گیا۔ لاشوں کی باقاعدہ شناخت کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ اس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں میں سکول کا پرنسپل بھی شامل ہے۔ حکام ابھی تک اس سانحہ کی وجہ تلاش نہیں کر سکے۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے صرف ایک شخص زندہ بچ سکا ہے۔ اکثر ہلاکتیں سکول کے ایک سیکشن کے دو کمروں میں ہوئیں۔ پولیس نے ابتدائی طور پر قاتل کا نام ایڈم لینزا بتایا ہے تاہم پولیس حکام کا خیال ہے کہ اصل قاتل ایڈم کا بڑا بھائی 24 سالہ ایڈم لینزا ہے جس کا شناختی کارڈ حملہ آور کی لاش کے قریب سے ملا ہے۔ امریکی ٹی وی کی رپورٹس کے مطابق بچ جانے والے بھائی کو پولیس نے تحویل میں لے کر پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔ عالمی رہنماﺅں نے امریکی سکول میں جنونی کی فائرنگ کے واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ان لیڈروں میں یو این او کے سیکرٹری جنرل بان کی مون، یورپی کمیشن کے سربراہ، پوپ بینیڈکٹ، برطانوی وزیراعظم، ملکہ برطانیہ، جرمنی کی چانسلر، فرانس کے صدر اور میکسیکو کے رہنما شامل ہیں۔ بچ جانے والے شخص نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ اس طرح کے واقعات آئندہ نہ ہوں۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہلاکتوں پر افسوس ہے۔ سینڈی ہک سکول میں کنڈرگارٹن سے چوتھی کلاس تک کل چھ سو طلبا و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق سکول میں حملہ ایڈم اور اس کی والدہ کے درمیان ایک عرصہ سے چلنے والے نامعلوم اختلافات تھے جن کی نوعیت کے بارے معلوم کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں متعین پاکستان کی سفیر شیری رحمن نے امریکی سکول میں حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر دکھ و رنج کا اظہار کیاہے۔ ایران نے امریکی سکول میں خون کی ہولی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رامن میمان پرست نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی معاشرہ جنگی جنون اور دنیا کے کسی بھی حصہ میں قتل و غارت گری کے خلاف خود کو متحرک کرے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی سکول میں گرنے والی لاشوں اور غزہ، افغانستان، پاکستان، عراق یا شام میں مسلح امریکی کارروائیوں سے ہونیوالی ہلاکتوں میں کوئی فرق نہیں۔

ای پیپر دی نیشن