ایک بنگالی ہندو میجر باسوڈھاکہ میں گیریژن انجینئر تھے۔ تقسیم کے اُصول سے ان کو بھارت جانا تھا اور ان کے کلکتہ جانے کے احکام بھی موصول ہو چکے تھے لیکن پاکستان آرمی ہیڈ کوارٹرز کےلئے نئی تعمیرات کے ٹھیکے دینے تھے اس لئے ہندو ٹھیکیداروں نے انگریزوں سے مل ملا کر انہیں تین ماہ کے لئے روک لیا اور نئے ٹھیکے دینے کے لئے ان کے اختیارات میں خصوصی اضافہ بھی کروا لیا۔ چنانچہ انہوں نے تمام ٹھیکے مخصوص افراد کو دئیے اور بھاری کمیشن سمیٹ کر اطمینان سے کلکتہ تشریف لے گئے۔ اسی طرح چٹاگانگ میں پہاڑ تلی کے مقام پر میلوں میں پھیلا ہوا ملٹری کیمپ تھا جس میں بھاشاہٹس (Bhasha Huts)بانسوں کے مکانوں کا ایک شہر بنا ہوا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد اس کیمپ کو فالتو قرار دے کر اس کا ملبہ فروخت کر دیا گیا اور جیسے ہی ٹھیکیدار ملبہ اٹھا چکے بعینہ اسی مقام پر حکومت پاکستان کے ملازمین اور خصوصاً ایسٹ پاکستان ریلوے کے سٹاف کے لئے وہی بھاشا مکانات لاکھوں روپے کا ٹھیکہ دے کر دوبارہ بنوائے گئے۔ یہ سب بھی بنگالی ہندوﺅں کا کارنامہ تھا۔
چٹاگانگ میں ایک ٹیریٹوریل آرمی یونٹ کی ایک انگریز افسر کمان کررہے تھے۔ آزادی کے نتیجے میں اس قسم کی تمام ٹیریٹوریل یونٹیں توڑ دی گئی تھیں۔ انگریز افسروں نے کلکتہ کے ہندو ﺅں سے ساز باز کر کے یونٹ کا سارا اسلحہ گو لہ بارود اور سازو سامان کلکتہ بھیجنے کا پروگرام بنایا۔ راقم کو پتہ چلا تو راقم نے اپنے انگریز G.O.Cکو سامان روکنے کے لئے کہا۔ اس نے انکار کر دیا تو میں نے رات کو بحیثیت ڈیوٹی افسر بذریعہ تار چٹاگانگ احکامات بھیج دئیے کہ یہ سارا سامان ڈھاکہ بھیج دیا جائے ۔ صبح میرا تا ر دیکھنے پر مجھ سے تو باز پرس نہ کی گئی مگر ایک نئے پیغام کے ذریعے پھر سے سامان کلکتہ بھیجنے کا حکم دیا گیا۔ اتفاق سے مجھے دوسرے ہی روز چٹاگانگ جانا پڑا ۔ وہاں دیکھا کہ سارا سامان ایک اسپیشل ٹرین میں لوڈ روانگی کیلئے تیار ہے۔ سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ ایسٹ پاکستان ریلوے کے مینجرجناب سہروردی سے ریلوے حکام کے نام حکم نامہ جاری کر وایا کہ کسی قسم کا ملٹری سامان بھارت کے لئے بک نہ کیا جائے ۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر جناب فضل احمد کریم فضلی سے سارا ماجر ا بیان کیا۔ فضلی صاحب بلا کے جو شیلے مسلمان تھے فوراً ایک تار ڈھاکہ GOCکو بھیجا کہ فوجی سامان کلکتہ بھیجنے کے لئے دیکھ کر مسلمان مشتعل ہو گئے ہیں اور کوئی سانحہ رونما ہوا تو نتیجہ فوجی ہائی کمان کی ذمہ داری ہو گی۔ یہ جناب فضلی کے دماغ کی اختر اع تھی ورنہ مسلمان مزدور تو بڑے مزے سے فوجی سامان کلکتہ کے لئے لوڈ کر رہے تھے اور ریلوے سٹاف بھی ٹرین لے جانے کےلئے بالکل تیار تھا۔ بہر حال ڈی سی کا تار ملنے پر جنر ل صاحب گھبرا گئے اور فوراً اسٹیشن کمانڈر میجر غلام حسین چاچا کو خفیہ احکام بھیجے کہ کمان افسر سے سارا فوجی سامان قبضہ میںلے لیا جائے اور اگر وہ انکاری ہو تو اسے فوراً حراست میں لے لیا جائے۔ بالآخر سارا فوجی سامان بھارت جانے سے بچ گیا۔
واضح رہے کہ ا س وقت ڈھاکہ میں دو بٹالین فوج تھی ان میں نصف کے قریب نفری ہندوﺅں اور سکھوں پر مشتمل تھی چند دنوں بعد اس ہندو سکھ نفری کو مکمل ہتھیاروں سے لیس کر کے بینڈ با جے کے ساتھ رخصت کر کے کلکتہ بھیج دیا گیا۔ انہی دنوں جو مسلمان فوجی دستے مغربی بنگال سے آرہے تھے ان کو ہندو مکمل طور پر غیرمسلح کر کے بھیجتے تھے لیکن اِن کے ساتھ آنے والے بنگالی افسروں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ انہی بنگالی افسروں میں کیپٹن غنی بھی تھے۔ جو خود بھی نہتے تشریف لائے تھے۔ کیپٹن غنی نے ان نہتے بنگالی فوجیوں کے ساتھ ایسٹ پاکستان رجمنٹ کی بنیاد رکھی۔ ان صاحب کو شروع سے فوجی امور کی نسبت سیاست سے زیادہ دلچسپی تھی ۔چنانچہ یہی صاحب تھے جنہوں نے شروع میںبنگالی فوجیوں میں مرکز گریزی کا بیج بویا اور بعد میں ایوبی دور میں یہ میجر غنی ایم این اے کے طورپر مشہور ہوئے ۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ان بنگالی فوجیوں کو ہندوﺅں نے قیام پاکستان پر تو غیر مسلح کر کے بھیجا لیکن 1971ءمیں اِسی ایسٹ پاکستان رجمنٹ کی بھگوڑا یونٹوں کو پاکستان کے خلاف لڑنے کے لئے انہی ہندوﺅں نے کیل کانٹے سے اچھی طرح لیس کر کے واپس ڈھاکہ بھیج دیا۔
ان دنوں مشرقی پنجاب اور دلی میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی جا رہی تھی جس کے نتیجے میں مغربی پاکستان میں لاکھوں بے خانماں مہاجروں کی آبادکاری کا مشکل مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔قائد اعظم نے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے چندہ کی اپیل کی تو میں نے وہاںسات آٹھ سو فوجیوں سے چندہ جمع کیا۔ تمام جوانوں نے ایک ماہ کی تنخواہ چندے میں دے دی افسروں نے ایک سو روپیہ فی کس دیا حتیٰ کہ انگریز GOCجنرل بی ایس مولڈ نے بھی ایک سو روپیہ دیا لیکن ایک بنگالی کپتان خانصور نے انکار کر دیا یہ صاحب مغربی بنگا ل سے جان بچا کر از خود ہی بھاگ آئے تھے لیکن چندہ مانگنے پر پاکستان کو برا بھلا کہتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کی وجہ سے ان کا تابناک مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ اس پر انگریز GOCنے اس کو واپس کلکتہ بھیجنے کا آرڈر دے دیاتو یہ دفتر میں ہی زاروقطار رونے لگ گیا۔ بعد میں اس نے اپنی ٹرانسفر مغربی پاکستان کروالی جہاں سے اعلیٰ تعلیم کے لئے ولائت بھیج دیا گیا لیکن برٹش ملٹری ادارے نے تین ماہ کے بعد اسے غیر معیاری اور نالائق قرار دے کر واپس پاکستان بھیج دیا۔ یہاں پر اپنی واپسی کے لئے اس کو باوجود تلاش کے کسی پنجابی سازش کا سراغ نہیں مل سکا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنگالی مسلمان جنہوں نے 1946ءکے انتخابات میں سو فیصد ووٹ پاکستان کو دئیے تھے پاکستان بننے سے بھی مہینہ بھر پہلے کس طرح پاکستان گریزبن گئے۔ اس کا تجزیہ تو تاریخ دان اور اسکالر ہی کر سکیں گے۔ لیکن جوبات مجھ جیسے عام شہری کو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ 3جو ن کا اعلان پاکستان کے قریب قریب یعنی قیام پاکستان کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کے دوران بنگال کی موثر ہندو اقلیت نے ایک طرف تو جناب سہروردی کو آزاد بنگال کا عظیم لیڈر بنا کر جال میں پھنسایا اور دوسری طرف زبردست پروپیگنڈہ مہم چلائی کہ متحدہ بنگال سے علیحدہ ہونے پر مشرقی بنگال میں پنجابی چھا جائیں گے۔ بہر حال ایک طرف مشرق میں ہندو لیڈر شپ پاکستان کو پیدائش سے قبل ہی مار دینے کی سازش کر رہی تھی تو دوسری طرف مغرب میں مسلمان ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی جائیداد کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف تھے۔ چنانچہ روز اوّل سے ہی قومی تشخص ابھارنے کے سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ نہ صرف ہمارے بچے اب برصغیر کی تقسیم کی وجوہات سے نا آشنا ہیں بلکہ ہمارے بعض NGOقسم کی خواتین و حضرات کی طرف سے موقع ملنے پر ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگتے ہیں۔ مسلمانوں کو تلک لگائے جاتے ہیں اور راکھیا ں باندھی جاتی ہیں اور بسنت کے ہندو تہوار کو سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے بعض لوگ انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔