بھارت کی رولنگ پارٹی نے کبھی بھی سچائی سے مسلمانوں (پاکستان) کیلئے کام نہیں کیا۔ کشمیر کے مسئلہ کو سلجھانے میں پنڈت جواہر لعل نہرو 1947-64 تک وزیراعظم رہے۔ شروع دن سے معاملات کو الجھائے رکھا۔ گورداسپور سے کشمیر کا راستہ بنایا۔ کشمیر میں فوجیں روانہ کرائیں۔ لاہور میں 29 اکتوبر کو میٹنگ جو لارڈ ماو¿نٹ بیٹن اور قائداعظمؒ کے درمیان ہونی تھی اس میں بیمار بن گئے۔ یکم نومبر 1947ءمیں قائداعظمؒ اور ماو¿نٹ بیٹن نے دستخط کئے کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیر کے لوگوں کی مرضی سے ہو گا۔ یہی صاحب مسئلہ یو این میں لے گئے۔ صاحبِ تدبیر بنے رہے، تقریریں کی کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی سے ہو گا جب پاکستان 17 ستمبر 1960ءکو کراچی سندھ طاس مسئلے کیلئے آئے ایوب خان نے کہا کشمیر کی بات چیت ہو جائے مری میں ایوب خان نے بڑے اونچے درجے کی مہمان نوازی سے جواب دیا جو مہاراج کشمیر امن کی طرف بڑھ رہا ہے امن ہو جائے پھر بات چیت کر لیں۔ منافقت جاری رہی، 1965ءکی جنگ ہوئی، تاشقند معاہدہ شاستری اور ایوب خان کے درمیان ہوا بعد میں اندراگاندھی پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیٹی وزیراعظم بنی اس کے افکار کا ذکر امریکہ کے سابق صدر رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب میں کیا وہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہیں :۔
رچرڈ نکسن اپنی ملاقات جو 4 نومبر 1971ءمیں وزیراعظم بھارت اندرا گاندھی سے ہوئی کا ذکر کرتے لکھتے ہیں۔ اندرا کا دورہ امریکہ بڑے نازک موقع پر تھا کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان میں پاکستان حکومت کے خلاف بے چینی تھی اور بھارت کی فوجیں اس میں حصہ دار تھیں، لوگ صدر پاکستان یحییٰ خان کے خلاف جلسے جلوس نکال رہے تھے، مکتی باہنی کو انڈیا کی فوج کی مدد حاصل تھی، اس کشمکش میں کافی تعداد میں لوگ مشرقی پاکستان چھوڑ کر بھارت کے علاقوں میں چلے گئے تھے۔ انڈیا نے ان کو پناہ دے رکھی تھیThe Memories of Richard Nikson (Grosset Dunlip-1978-N.Y Page 132,525)
اندرا گاندھی وزیراعظم بھارت نے صدر امریکہ رچرڈ نکسن کے ساتھ سرکاری ملاقات ان کی دہلیز اوول واشنگٹن میں کی۔ اس کا دورہ واشنگٹن بڑے نازک موقع پر تھا کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان میں بے چینی تھی اور بھارت کی فوج اس کے مطابقت تھی اور مشرقی پاکستان میں صدر یحیٰی خان، پاکستان کی حکومت کے خلاف جلوس نکلتے تھے اور اس میں مکتی باہنی کی سپورٹ اندرا کی فوج کر رہی تھی ان کو انڈیا نے پناہ دے رکھی تھی۔
ان کی باتوں اور عمل سے بڑا افسوس ہُوا کہ عملی طور پر اندرا گاندھی صدر یحییٰ کے ساتھ مذاکرات یا امن کی بات کا اہتمام نہیں کر رہی حالانکہ ہماری میٹنگ میں اندرا نے اقرار برائے امن کیا مگر مشرقی پاکستان کے اندر تنازع میں کمی کرنے میں کردار ادا نہیں کیا۔ یحییٰ خان نے اقرار کیا کہ وہ مشرقی پاکستان سے اپنی فوجیں ہٹانے کیلئے تیار ہے اگر انڈیا اپنی فوجوں کو سرحد سے ہٹا لے، مگر اندرا گاندھی نے ایسا اعلان نہ کیا۔
رچرڈ نکسن مزید تحریر کرتے ہیں کہ میں نے کہا ”پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کوئی خاص مقصد حاصل نہیں ہو گا اور بھارت کی جانب سے ایسی سرگرمیاں (فوجی ردعمل) میں کوئی اصلاحی پہلو نظر نہیں آتا کہ اس سے کیا حاصل ہو گا؟ اس طرح مڈل ایسٹ میں روس اور امریکہ کی ٹینشن سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے حالات سے روس، چین اور امریکہ کے مفاد کو ساﺅتھ ایشیا میں خطرات ہو سکتے ہیں۔ انڈیا نے ایسے اقدام کئے جس سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو۔ دنیا کی طاقتور روس طاقت روس کیا اقدام اٹھائے گی۔ ہُوا کیا؟
اس ملاقات کے ایک ماہ بعد انڈیا نے روس کی مشینری اور فوجی طاقت کے ساتھ مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور ساتھ ساتھ مغربی پاکستان کی سرحدی علاقوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملہ کے پیچھے مقصد کا تعین کرنا مشکل تھا کہ انڈیا کو پاکستان کی فوج کو شکست دینا چاہئے یا پوری طاقت کے ساتھ حملہ کرنا تھا، ایسا کرنے کیلئے فوراً نہیں سوچا جاتا، اس قسم کے حملہ کے لئے تیاری ایک ماہ سے زیادہ عرصہ کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ اب میرے لئے یہی تھا کہ اندرا گاندھی نے ہماری میٹنگ (4 نومبر 1971ئ) میں جھوٹ بولا اور ہمیں دھوکہ میں رکھا اور پاکستان پر حملہ بڑی طاقت کے ساتھ کر دیا۔ پاکستان میں ریڈیو سٹیشن قائم کیا گیا جو بنگالی زبان میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کیلئے بنایا تھا اور بغاوت کے حق میں تلقین نشر کرتا تھا ۔
بڑی طاقتیں بشمول امریکہ یحیٰی خان کو مشورہ دیتے رہے کہ وہ سختی (ملٹری ایکشن) کی بجائے پُرامن حل تلاش کی طرف اقدام کریں تاکہ مزید قتل و غارت کو روکا جا سکے۔ تاہم رچرڈ نکسن اظہار تعجب سے کرتے ہیں کہ ہمیں صحیح علم نہ تھا کہ اس گیم میں انڈیا نے موقع پا کر نہ صرف مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر کے کنٹرول حاصل کرکے گا بلکہ سارے پاکستان کو ختم کرنے یا کمزور کرنے کے ارادوں سے لیس ہے۔
اندرا گاندھی نے ایک طرف جھوٹ سے مایوس کیا، دوسری طرف روس نے بھی ہمیں ڈیفنس سٹریجڈی سے دور رکھا کہ ہم نے روس سے کہا تھا کہ ایسی ترکیب سے دور رہنا چاہئے اور بھارت کی پاکستان پر حملہ آوری کو ہم سپورٹ نہیں کرتے، لہٰذا روس کی قیادت نے اپنی کمیونسٹ طاقت کے اظہار کیلئے سپورٹ کیا۔ اصل اظہار یہ تھا کہ چین کی کمیونسٹ طاقت کو بتایا جائے کہ دنیا میں کمیونسٹ ریاست صرف روس کی ہے۔ اس حملہ کے ساتھ روس نے اپنی فوج چین کی سرحد کے ساتھ الرٹ کر دی تاکہ چین کسی صورت میں پاکستان کی مدد کرنے نہ آ جائے ۔ لہٰذا ہمیں بھارت کی جارحانہ پالیسی اور روس کی ایڈونچر میں حکمت عملی پسند نہ آئی۔ لہٰذا ہم نے نئے حالات کا جائزہ لیا۔ ہنری کسنجر نے ایک سپیشل میٹنگ منعقد کی اور امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے محسوس کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی یا آزادی اب ناگزیر ہے لہٰذا انڈیا کے ڈیزائن مغربی پاکستان کی سرحدوں کیلئے غور و عمل میں رکھا جائے اور حالات کی روش کو دیکھا جائے مگر ہم نے روس کو وارننگ دی اس قسم کی جنگ سے ہمارے تعلقات اچھے نہیں رہ سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جنگ بندی فوراً کی جائے اور بھارت کی تمام فوج پاکستان کی سرحدوں سے نکال لی جائے۔ جنگ بندی کے بعد دونوں پارٹیوں میں افہام و تفہیم کیا جائے اور ہم مشرقی پاکستان کی آزادی کے قائل ہیں، لہٰذا ایسی جنگ فوراً بند کی جائے اور مزید بڑی جنگ کا خطرہ نہ لیا جائے۔ صدر نکسن روس کے صدر برزنیف کو یہ خط لکھا ”اب یہ مقصد عام ہو چکا ہے کہ انڈین ملٹری فورسز نے مشرقی پاکستان میں سیاسی افکار حاصل کرنے کیلئے حملہ کیا اور پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی چال چلی اور آپ کی حکومت نے پوری حمایت بھی کی اور انڈین پالیسی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اب ہماری ماسکو میں میٹنگ مئی میں ہونے والی ہے لہٰذا اس میٹنگ کی کامیابی اسی وقت ہو سکتی ہے جب یہ سرحدی تنازعہ ختم کیا جائے۔“ روس نے بھی ہمیں یقین دلایا، روس کی لیڈر شپ نے نئی روش اختیار کی کہ اس خطہ میں امریکہ نے امن قائم رکھنے کی کوشش نہیں کی اور ساتھ ہی جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہم پر زور دیا کہ پاکستان، مشرقی پاکستان کی آزادی کا فوراً اعلان کر دے۔ اس کا مدعا یہ ہوا کہ روس، انڈیا کے ساتھ ہے اور ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ پاکستان کو سپورٹ کیا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس علاقہ میں امریکہ کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ ہنری کسنجر نے تحریر کیا کہ ہمارے پاس کوئی مزید چوائس نہیں کہ ہم اپنے دوستوں اور چین کو مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ روس کے دوستوں کی وجہ سے ناگوار وقت آن پڑے اور بعد میں کوشش یہ کی گئی کہ یحیٰی خان کو مجبور کیا جائے کہ وہ مشرقی پاکستان کو چھوڑیں۔ یہ تھی سازش جس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی عمل میں آئی۔
امریکہ کی حکومت ذہنی طور پر مشرقی پاکستان کی آزادی کیلئے تیار ہو چکی تھی۔ نہ تو چین نے آگے آنے کی کوشش کی اور نہ امریکی بحری بیڑہ آگے آیا۔
16 دسمبر 1971ءکو مشرقی پاکستان کی فوج کے کمانڈر صدر اللہ خان نیازی نے انڈین آرمی کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور یحییٰ خان نے جنگ بندی منظوری کر لی۔ 16 دسمبر کو مغربی پاکستان کے حالات خراب ہو سکتے تھے مگر بڑے سگنل اور پیغامات کی بدولت انڈین فوج کے حملے کو مغربی پاکستان سے روکا گیا۔
امریکہ کے صدر نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھارتی حکمران گاندھی جی کے عدم تشدد کا پرچار کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔
سقوط بنگال میں اندرا گاندھی کا کردار
سقوط بنگال میں اندرا گاندھی کا کردار
Dec 16, 2013