مجھے اپنی وہ سرزمیں چاہیے ....( اعزاز احمد آذر)

Dec 16, 2015

ڈاک ایڈیٹر

اجالوں پہ تاریکیاں چھا گئیں

میرا دیس خود غرضیاں کھا گئیں
میرا دیس میری وہ جنت لُٹی
میرا شوق میری محبت لُٹی
محبت میری وہ میرا بانکپن
وہ دھرتی میرے دیس کی وہ پھَبن
وہ دھرتی کھلا مسکراتا کنول
وہ دھرتی ارے وہ مجسم غزل
وہ دھرتی جو دریا¶ں جھیلوں کی ہے
الڑ مانجھیوں چھل چھبیلوں کی ہے
وہ دھرتی جو آتش بجانوں کی ہے
جو محنت کشوں اور کسانوں کی ہے
جری شیر دل ہیں جیالے جہاں
وہ اندھی‘ کے طوفاں کے پالے جہاں
مساجد ہر اک گام پر ہیں جہاں
فضا¶ں میں جس کی رچی ہے اذاں
اُگلتی ہیں سونا جہاں کھیتیاں
سُناتی ہیں نغمے جہاں ندیاں
جہاں نین مدھ کے کٹورے بھرے
نشے کو بھی جن سے ہے نشہ چڑھے
جہاں چائے کی بھینی بھینی مہک
سنہرے وہ ریشے کی اپنی چمک
مچھیروں کے لب پر ترانے جہاں
محبت بھرے ہیں فسانے جہاں
جہاں موت سے کوئی ڈرتا نہیں
جہاں مر کے بھی کوئی مرتا نہیں
جہاں لٹ گئی ابروِ وطن
جہاں اب خزاں ہے چمن در چمن
مری زندگی میرا ایمان و دیں
مری دھرتی ماتا مری سرزمیں
مجھے اور کچھ بھی نہیں چاہیے
مجھے اپنی وہ سرزمیں چاہیے

مزیدخبریں