سقوط ڈھاکہ کی 44ویں ‘ پشاور اے پی ایس پر بربریت کی پہلی برسی پر قوم افسردہ اور دل گرفتہ

شہید بچوں کو خراج ِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ دہشتگردوں کا مکمل صفایا ہے

قوم آج سقوط ڈھاکہ کے 44سال پورے ہونے پر دکھی دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ وطن عزیز کے دولخت ہونے کے سانحہ کی یاد تازہ کر رہی ہے۔گزشتہ سال 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کی سفاکیت نے سقوط مشرق پاکستان کے درد کو مزید گہرا کر دیا۔ آج 16 دسمبر کے بدنصیب دن ہی مشرقی پاکستان میں اس ملک خداداد کو توڑنے کی بھارتی سازشیں کامیاب ہوئیں اور جنرل اے اے کے نیازی نے بھارتی جنرل اروڑہ کے سامنے سرنڈر کرکے قومی تاریخ میں سیاہ ترین باب کا اضافہ کیا۔ 16 دسمبر 1971ء کا سقوط ڈھاکہ کا سانحہ بلاشبہ ہماری تاریخ کے بدترین اور سیاہ ترین اوراق میں شامل ہے جو ملک کی سالمیت کے تحفظ کے حوالے سے ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کیلئے نشانِ عبرت بھی بنے رہیں گے اور آئندہ ایسی کسی سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کی تلقین بھی کرتے رہیں گے۔ جنرل نیازی کے بھارتی جرنیل اروڑہ سنگھ کے آگے پستول پھینک کر اور پیٹی اتار کر سرنڈر کرنے اور ملک کی مسلح افواج کے 90 ہزار سے زائد جوانوں اور افسران کو جنگی قیدیوں کی شکل میں ازلی مکار دشمن بھارت کے حوالے کرنے کے 44سال قبل کے واقعات آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو سوائے شرمندگی‘ پشیمانی اور ندامت کے اور کوئی احساس اجاگر نہیں ہوتا۔ یہ وہ داغ ندامت ہے جو ہماری پیشانیوں پر انمٹ داغ بن کر قومی غیرت و حمیت کو ہمہ وقت جھنجوڑتا رہے گا۔
بھارت نے تو اس سانحہ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کر کے اسے کمزور کرنے کے مقاصد حاصل کئے اور اسی سرشاری میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے نظریۂ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دور حاضرمیں ہمارے اب تک کے حکمرانوں نے اس سانحہ سے کوئی سبق سیکھا بھی ہے یا نہیں؟ اس بدنصیب دن کے سانحہ پر اس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کو یقینا بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا جنہوں نے اپنے ہی کرائے گئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر واضح اکثریت حاصل کرنیوالی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے دانستاً گریز کیا اور شیخ مجیب الرحمان کو جیل میں ڈال کر مشرقی پاکستان کے عوام میں منافرت کی فضا پیدا کی جبکہ دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو اس وقت دانشمندی سے کام لیتے اور عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے فوجی حکمرانوں کو اپنے اپوزیشن میں بیٹھنے کا پیغام پہنچاتے تو یقینا انکے پاس شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار منتقل کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہتا مگر اس وقت کی فوجی قیادتوں کی بے تدبیری اور کج فہم سیاسی قیادتوں کی ہٹ دھرمی نے مشرقی پاکستان کے حالات کو منافرت کی آگ میں اس نہج تک پہنچا دیا کہ شروع دن سے ہی ملک کی سالمیت کے درپے ہمارے دشمن بھارت کو پاکستان کی سالمیت پر کاری ضرب لگانے کا نادر موقع مل گیا جس نے 3 دسمبر 1971ء کو ہم پر جنگ مسلط کی اور اپنی پروردہ مکتی باہنی کو افواجِ پاکستان کے مدمقابل لا کر جہاں مسلمانوں کے خون کی ارزانی کا اہتمام کیا وہیں اس ارضِ پاک کو دولخت کرنے کیلئے حاصل ہونیوالے موقع کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اس طرح جو وطنِ عزیز اکھنڈ بھارت کے پیروکاروں کے عزائم کو پاش پاش کرتے ہوئے اسکے وجود کو کاٹ کر بانی پاکستان قائداعظم کی زیر قیادت جاری پُرعزم تحریکِ پاکستان کی کامیابی کی صورت میں اس خطۂ ارضی پر ابھر کر سامنے آیا تھا اور جس کی بنیاد برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کے خون اور عفت مآب بہنوں، بیٹیوں، مائوں کی عصمتوں کی قربانیوں سے سینچی گی تھی اسکی تعبیر ہماری فوجی اور سیاسی قیادتوں کی عاقبت نااندیشی نے ادھوری بنادی۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کی شکل میں موجود باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارتی عزائم کو بھانپ کر ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور کشمیر کے حصول کیلئے بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان بھی کیا مگر دشمن کو ملک توڑنے کا موقع فراہم کرنیوالے ان کے کردار کو بھی تاریخ کے اوراق سے مٹایا نہیں جا سکتا جبکہ یہ حالات ہماری حکومتی، سیاسی اور عسکری قیادتوں سے ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے اور آئندہ ایسی کوئی غلطی نہ ہونے دینے کے آج بھی متقاضی ہیں۔
آج سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ قوم آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں کی بربریت سے شہید ہونیوالے ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کو خراج عقیدت بھی پیش کررہی ہے۔ آج پشاور میں منعقد ہونیوالی تقریب میں وزیراعظم نوازشریف‘ عمران خان اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی شرکت موقع ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے انکی پہلی برسی کے موقع پر وفاق کے 122 تعلیمی ادارے اے پی ایس کے شہداء کے نام سے منسوب کئے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور سرطان کی طرح پھیل چکا تھا۔ پاک فوج نے ضرب عضب اپریشن کے ذریعے اسے ختم کرنے کی کوشش کی۔ جون 2014ء کے وسط میں شروع ہونیوالا اپریشن روایتی انداز میں جاری تھا۔ دہشت گردوں اور انکے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا کہ اس دوران اے پی ایس پر دہشت گردوں نے سفاکانہ کارروائی کی۔ فائرنگ اور بم دھماکوں میں سینکڑوں بچے خون میں لت پت ہوگئے۔ اسکے بعد اپریشن ضرب عضب میں ایک نیا جوش اور جذبہ دیکھنے میں آیا۔ بچوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کرکے دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے قوم کو متحد کرکے سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔ دہشت گردوں کی پھانسیوں کا عمل پھر سے شروع ہو گیا۔ آئی ایس پی آر کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کیخلاف جاری اپریشن ضرب عضب سے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران شاندار کامیابیاں ملیں، پاکستان افغانستان بارڈر کے قریب دہشت گردوں کے آخری ٹھکانوں کو کلیئر کیا جا رہا ہے، اپریشن ضرب عضب میں مجموعی طورپر 3400 دہشت گرد مارے گئے، گزشتہ 18 ماہ میں 183 انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو ہلاک اور خفیہ معلومات پر 21193 کو گرفتار کیا گیا، اپریشن میں دہشت گردوں کے837 ٹھکانے تباہ کئے، بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کیاگیا، دہشت گردوں کیخلاف جاری اپریشن میں پاک فوج ایف سی اور رینجرز کے 488 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، 1914 جوان زخمی ہوئے۔
آج دہشت گردوں کے حملوں اور کارروائیوں میں کافی حد تک کمی آچکی ہے۔ دہشت گردوں کو بیرون اور اندرون ملک سے تعاون اور پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر عالمی برادری خصوصی طور پر پڑوسی ممالک اور اندرون ملک سے حکومت اور فوج کو سپورٹ ملتی تو اب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ اندرون ملک دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر کڑا ہاتھ ڈالا گیا ہوتا تو دہشت گردوں کی اکا دُکا کارروائیوں کی سکت بھی ختم ہو چکی ہوتی۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سپورٹرز کا احتساب بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ دہشت گردوں کی اندرونی و بیرونی فنڈنگ کی بندش اور پشت پناہی کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ملک میں موجود انکے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا ہے۔
آج قوم سقوط مشرقی اور سانحہ پشاور پر غمزدہ اور دل گرفتہ ہے۔ اس موقع پر سیاسی اور عسکری قیادت کو سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایسی غلطیوں کے ارتکاب سے اجتناب کا مصمم عہد کرنا ہے۔ گزشتہ سال پشاور میں بربریت کا نشانہ بننے والوں سمیت دہشت گردوں کی دیگر بہیمانہ کارروائیوں میں شہید ہونیوالوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ملک کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے مکمل طور پر پاک کر دیا جائے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کیخلاف مصلحتوں سے بالا ہو کر اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر بے رحم اپریشن کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن