16 دسمبر 1971ءکو سقوطِ مشرقی پاکستان ہوا۔ یوں دسمبر کا مہینہ سقوط مشرقی پاکستان اور محب وطن پاکستانیوں کے دل کے زخم ہرے ہونے کا مہینہ ہے۔ 1971ءکے بعد سے جب بھی یہ مہینہ آتا ہے، اپنے ساتھ ان اسباب و علل اور ان کرداروں کے تذکرے کو بھی لیکر آتا ہے جو پاکستان کو دولخت کرنے اور سقوط مشرقی پاکستان کا جواز بنے۔ چنانچہ اس موقع پر اور اس حوالے سے اہل فکر و دانش اپنے اپنے نقطہ نظر اور اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق تجزیئے پیش کرتے ہیں کہ یہ المیہ کیونکر کیسے کن ہاتھوں اور کرداروں سے رونما ہوا۔ ہماری دانست میں جب سے یہ سانحہ ہوا ہے اس موضوع پر بحث و مباحثے سے اتنی گرد اُڑائی گئی ہے کہ حقائق دھندلانا شروع ہوگئے ہیں اور دکھ، تکلیف اور اذیت کی بات یہ ہے کہ اس شرمناک اور کربناک واقعہ کے سب سے بڑے کردار خودساختہ ٹائیگر نیازی سابق کمانڈر مشرقی کمان بڑی ڈھٹائی کےساتھ اس سانحہ کے بطن سے یہ Pleasure اور Blessing نکالتے رہے کہ اگر وہ سرنڈر یعنی ہتھیار ڈالنے کا دانشمندانہ فیصلہ نہ کرتے تو آج اس موجودہ پاکستان میں رہنے والے بھی آزاد اور خودمختار ملک کے شہری نہ ہوتے۔
تاریخ عالم اس امر کی شاہد ہے کہ جنگوں میں اگر کبھی پوائنٹ آف نو ریٹرن آیا تو جرنیلوں نے ہتھیار ڈالنے اور قیدی ہونے کی اذیت پر جان قربان کردینے کے عمل کو ترجیح دی۔ جان سے گزر جانا اگرچہ ایک مشکل عمل ہے مگر ایک فوجی خصوصاً جرنیل اور وہ بھی مسلمان جرنیل کی ٹریننگ میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ ”سر پھوڑ کے مر جائےگا سجدہ نہ کر یگا“۔
ہمارے علم کےمطابق ایک جرنیل کو ٹریننگ کے دوران تاریخ کے ان روشن اسباق سے فیض کی راہ بھی دکھائی جاتی ہے جس پر عمل سے جس پر عمل سے وہ تاریخ میں امر بھی ہوسکتا ہے، ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے دنوں دانشور، برادرم راجہ انور نے سنایا۔ کاش ٹائیگر نیازی نے یہ واقعہ ہی پڑھا یا سنا ہوتا؟ واقعہ یوں ہے .... دوسری جنگ عظیم کے شعلے اپنے عروج پر تھے۔ فلپائن کے گھنے جنگل میں امریکہ اور جاپان کی افواج نبردآزما تھیں، جاپانی فوج کے کمانڈنٹ نے آگے بڑھتی ہوئی امریکی فوج کو روکنے کیلئے درختوں پر مچان باندھ کر دفاعی حصار بنادیا۔ اس نے ہر مچان پر ایک نشانچی فوجی سپاہی بٹھا دیا کہ جونہی اسے دشمن نظر آئے، وہ اپنے ٹھکانے سے اس پر گولیوں کی برسات کردے۔ تاریخ کی یہ خوفناک ترین جنگ 4 کروڑ انسانوں کا خونِ ناحق چاٹنے کے بعد 1945ءمیں اٹلی، جرمنی اور جاپان کی شکست پر انجام پذیر ہوئی۔ بعداز جنگ کی فضا یکسر مختلف تھی، معاشی اشتراک کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پرانے دشمن یک جان و چہار قالب ہوگئے۔ آہستہ آہستہ جنگ کی تلخیاں بھولی بسری یادوں میں ڈھل گئیں۔ سٹالن، چرچل، روزویلٹ، میسولینی، ہٹلر اور ٹوجو قصہ¿ پارینہ ٹھہرے۔ جنگ کے اختتام کے 34 برس بعد فلپائن کے محکمہ جنگلات کے ایک ٹیم ربڑ کے درختوں پر نشان لگاتے ہوئے جب انہی درختوں کے درمیان پہنچی تو اچانک کسی نادیدہ مقام سے اس پر گولیاں برسنے لگیں۔ ان لوگوں نے اِدھر اُدھر بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔ جب اس واقعہ کی اطلاع حکام بالا تک پہنچی تو انہوں نے ”دہشتگردوں“ سے نمٹنے کیلئے فوج کے دستے بھیج دیئے۔ کمانڈر نے اس سارے علاقے کو گھیر لیا۔ کافی تگ و دو کے بعد انہیں پتہ چلا کہ ایک اونچے درخت کی ٹہنیوں کے درمیان سے ان پر فائرنگ ہورہی ہے۔ کمانڈوز نے لاﺅڈ سپیکر کے ذریعے ”دہشتگردوں“ کو ہتھیار پھینکنے کا حکم دیا۔ مگر دوسری طرف سے کسی ادق زبان میں جواب دیا گیا، تحقیق اور غور پر معلوم ہوا کہ وہ جاپانی زبان میں بات کررہا ہے۔ فوج کے اس دستے نے ایک ترجمان کے ذریعے ”دہشتگرد“ کو مچان سے نیچے اترنے کا حکم دیا۔ مگر اس نے گرجدار آواز میں الٹی میٹم دیا: ”میں اس مورچے کا محافظ ہوں جس کسی نے آگے بڑھنے کی کوشش کی، میں اسے گولیوں سے بھون دوں گا، یہ میرے کمانڈنگ افسر کے احکامات ہیں....“ یہ دراصل جاپانی پیادہ فوج کے اس دفاعی حصار کا وہ آخری سپاہی تھا جس نے 34 برس قبل مچان سنبھالا تھا۔ اگرچہ اب اس کا کوئی کمانڈنٹ تھا اور نہ کوئی ساتھی یا ہم زبان، لیکن وہ پھر بھی اپنے محاذ پر ڈٹا ہوا تھا، اس کی آنکھیں دشمن کی تلاش میں سرگرداں تھیں اور بندوق گولیاں اگلنے کےلئے تیار.... فلپائنی فوج کو جب اس حقیقت حال کا علم ہوا تو اس نے اسے (سپاہی کو) مچان سے اتارنے کیلئے جاپانی سفیر کو بلوا لیا۔ سفیر نے اسے اس کی زبان میں بتہیرا سمجھانے کی کوشش کی کہ جنگ کو تو ختم ہوئے ایک زمانہ بیت چکا ہے، اس لئے وہ ہتھیار رکھ دے، مگر سپاہی نے دوٹوک الفاظ میں ایک ہی جواب دیا کہ وہ صرف اپنے کمانڈنٹ کا حکم مان سکتا ہے۔ بالآخر جاپان سے اسکی پلاٹون کے موجودہ کمانڈنٹ کو بلوایا گیا، جسے پورے اہتمام سے زمانہ جنگ کی وردی پہنائی گئی۔ اس نے سپاہی کو نیچے اترنے کا حکم دیا۔ تب جاپانی سپاہی اپنے کمانڈنٹ کے حکم پر مچان سے نیچے اترا۔ اس وقت اسکی عمر 54 برس ہوچکی تھی۔ جاپانی فوج کا وہ سپاہی تاریخ میں آج بھی ایک زندہ حوالے کے طور پر موجود ہے اور آئندہ بھی اس کا تذکر اسی عزت اور احترام کے ساتھ ہوتا رہے گا، مگر کیا ہمارے جرنیل خودساختہ ٹائیگر، اے کے شیر دل نیازی کا نام تاریخ میں کبھی احترام سے لیا جاسکے گا؟