لاہور (احسان شوکت سے) صوبہ پنجاب میں جرائم کی شرح میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ رواں سال 2015میںصوبہ بھر کے تھانوں میں مختلف جرائم کے 3 لاکھ 84 ہزار 8 سو 46 مقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔ جن میں قتل، اقدام قتل،جانی نقصان پہنچانے، اغوا برائے تاوان، اغوا، ریپ اور دیگر جرائم جس سے انسانی جان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں جن میں 57 ہزار 2 سو 69 جبکہ جائیداد یا مالی نقصان پہنچانے، ڈکیتی، راہزنی، نقب زنی، گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، دیگر وہیکلز و مویشی چوری و چھیننے کے 1 لاکھ 2 ہزار 73 مقدمات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سپیشل اور لوکل لاز کے تحت 1 لاکھ 22 ہزار 9 سو 45 مقدمات جبکہ دیگر متفرق قوانین کے تحت 1 لاکھ 2 ہزار 5 سو 59 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ رواں سال قتل کے 5 ہزار 1 سو 19، اقدام قتل کے 6 ہزار 4 سو 12، زخمی کرنے کے 15 ہزار 9 سو57، اغوا کے 14 ہزار 4 سو 23، اغوا برائے تاوان کے95، ریپ کے 2832، گینگ ریپ کے 226، ڈکیتی کی 15 ہزار 4 سو 45، سرقہ بالجبر کی 16 ہزار 7 سو 6، نقب زنی و چوری کی 12 ہزار 5 سو 26، مویشی چوری کے 6 ہزار 9 سو 32، گاڑیاں و موٹر سائیکلیں چوری کے 20 ہزار 5 سو 60 جبکہ چھیننے کے 6 ہزار 4 سو 48 مقدمات درج ہوئے۔ جرائم کی یہ وہ تعداد ہے جن کے مقدمات درج ہوئے۔ ذرائع کے مطابق تھانوں میں مقدمات درج کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پولیس مقدمات کے اندراج کی بجائے متاثرہ شہریوں کو تھانے کے چکر لگواتی ہے جبکہ ڈکیتی و چوری کے مقدمات درج کرنے سے کتراتی ہے۔ ڈکیتی کی وارداتوں کے صرف 15 سے 20 فیصد ہی مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ سنگین جرم کے مقدمات میں تحریف کرنے کے شکایات عام ہیں جبکہ رواں سال پولیس کے جانب سے مقدمات درج نہ کرنے کی شکایات میں بھی بہت اضافہ ہو ا ہے۔ پولیس افسروں کے بلند بانگ دعوؤں کے برعکس 2015 ء میں عملاً جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکا۔