مکہ معظمہ سے۔۔۔!

عمرہ ویزہ کھلنے کی دیر تھی کہ دنیا بھر سے مسلمانوں کا ہجوم امڈ آیا۔ سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے دو حرم کی خدمات سونپ کر اس قوم کے وارے نیارے کر دیئے۔ تیل ختم بھی ہو جائے تو زائرین حرم کے توسط سے اس خطہ کی کمائی میں برکت ہی برکت ہے۔تکلیف دہ موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ سعودی حج منسٹری اور مسلمان ٹریول ایجنٹوں کو ہدایت سے نوازے۔ اس خطہ ارض کو حضرت ابراہیمؑ کی دعا ہے لہٰذا یہاں کے مکینوں کو دنیا کی نعمتوں کی کمی نہیں ۔ امت مسلمہ اپنے انبیاء کی دعائوں کا صدقہ کھا رہی ہے ورنہ اعمال کا حال بڑا پتلا ہے۔ حرمین شریفین وہ مقامات مقدسہ ہیں جہاں بندہ دل سے دعائیں مانگتا ہے گو کہ کچھ دعائیں دماغ سے بھی مانگنا پڑتی ہیں۔کسی کے دل سے دعا نکلوانے کے لیئے حضرت علیؓ کے قول مبارک پر غور کرنا ہو گا۔ آپ ؐنے فرمایا ’ کسی کو دعا کے لیے کہنے کی بجائے ایسے عمل کر جائو کہ بندے کے دل سے دعا نکلے‘۔ مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے، ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا، اک بندے دا دل نہ ڈھاویں ،رب دلاں وچ ریندا‘‘۔ جان بوجھ کر کسی کا دل دکھانے سے اجتناب کیا جائے کہ دل دعا کا گھر ہے ۔دل دکھ جائے تو اس بندے کے لیئے دل سے دعا نہیں نکلوائی جا سکتی اور دماغ سے دعا یعنی دکھ دینے والے کو معاف اور در گزر کرنے کے باوجود اس بندے کے لیئے دعا دل سے نہیں البتہ دماغ سے کرنے دعا کرنے کی کوشش کی جائے۔ دل کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا۔یہ بندوں کے بیچ کا معاملہ ہے لہذا اللہ کے گھرجانے والوں سے کوشش کریں کہ معافی تلافی کر لی جائے کہ اللہ کے گھر مانگی دعائیں رد نہیں ہو تیں ۔اللہ سب کو ہدایت دے خاص طور پر خلوص اور محبت کی نا قدری کرنے والوں کے لیئے ہدایت کی دعا ضروری کی جائے ۔قطع تعلقی اللہ کو نا پسند ہے جبکہ لا تعلقی سے تعلق جوڑے رکھنا بندے کے لیئے مشکل ہے۔حرم مکہ میں کالم لکھنا تو درکنار نیند کی چند گھڑیاں میسر آجائیں تو غنیمت سمجھتے ہیں۔ مگر قارئین کی بے پناہ محبت اور خلوص زیادہ ناغوں کی اجازت نہیں دیتا۔ مکہ معظمہ کاہجوم بتا رہاہے کہ قافلے سوئے حرم جوق در جوق رواں دواں ہیں۔ حرم مکہ کی رنقیں قابل دید ہیں۔ موسم انتہائی خوشگوار ہے۔ فجر کے وقت ہلکی ٹھنڈ محسوس ہوتی ہے۔حرم میں تعمیرات کا کام جاری ہے۔ بیت اللہ شریف کی ہجر اسود اور رکن یمانی کے بیچ کی دیوار مبارک پر مرمت کا کام ہو رہا ہے جس کی دیوار کا یہ حصہ دکھائی نہیں دے رہا۔زائرین کی ہجر اسود کو بوسہ دینے کی حسرت پیاس میں مبتلا ہو چکی ہے البتہ بیت اللہ کے اطراف عارضی تعمیر شدہ رِنگ پر طواف کے دوران بیت اللہ شریف کے نظاروں سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے جبکہ ہجر اسود بالائی منزل سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کپڑے سے ڈھانپ رکھا ہے۔ ربیع الول کے مقدس مہینے کا آغاز ہو چکا ہے۔ یکم ربیع الول کی شام کو مسجد حرم کے نزد تعمیر گھڑی والے بلند و بالا ٹاور سے سبز رنگ کی روشنی آسمان تک جاتی دکھائی دی۔ بہت دلکش نظارہ تھا ۔ سنا ہے عیدین کے موقع پر اس عمارت سے اس سے بھی زیادہ تیز روشنیوں کا نظارہ پیش کیا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے یوم پیدائش کی خوشی کا اظہار زائرین میں شیرینی تقسیم کر نے سے کیا۔ مکہ معظمہ وہ شہر ہے جہاں حضورؐ کو نبوت بھی عطا ہوئی اور ظلم و ستم کی انتہاء بھی اسی شہر میں ہوئی۔ مکہ معظمہ میں مشرکین کے ہاتھوں حضورؐ اور ان کے اصحابؓ پر مظالم نے انہیں ہجرت پر مجبور کر دیا ورنہ آبائی وطن اور شہربیت اللہ چھوڑنا آسان نہ تھا۔ شہر مکہ اور خاندان والوں کی جدائی کے غم میں اکثر صحابہؓ بیمار ہو گئے۔ حضورؐ نے شہر مکہ کی جانب آخری بار مڑ کر دیکھا اور رنجیدہ ہوتے ہوئے فرمایا ’’اے شہر مکہ‘ تو پاکیزہ شہر ہے اور مجھے بے حد عزیز ہے۔ اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں کسی اور جگہ نہ جاتا‘‘۔ جدائی کا وہ منظر نا قابل بیان ہے۔ مکہ معظمہ کے قدیم قبرستان جنت معلی پر بھی حاضری پیش کی ۔ام المومنین حضرت خدیجہؓ بھی اسی قبرستان میں مدفن ہیں۔ حضورؐ اپنی محبوب زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ بے انتہاء محبت کرتے تھے۔ ان کی جدائی آپؐ پر گراں گزری۔ آپؐ کی اور بھی ازواجؓ تھیں مگر بی بی خدیجہؓ کے وصال کے بعد شاید ہی کوئی دن حضرت خدیجہؓ کے ذکر کے بغیر گزرا ہو۔ جب تک خدیجہؓ زندہ رہیں، آپؐ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’جتنا رشک مجھے خدیجہؓ پر تھا‘ کسی بیوی پر نہ تھا۔ آپؐ حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کابھی بے حد احترام کرتے تھے حتیٰ کہ ان سے منسوب ہر چیز کو عزیز رکھتے تھے۔ حضورؐکی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے جہیز میں ایک ہار تھا جو ان کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہؓ نے انہیںدیا تھا۔ حضرت زینبؓ کی شادی قبل از اسلام ہوئی تھی۔ ان کے شوہر مشرک تھے۔ مشرکین کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ دوسرے قیدیوں کے ساتھ وہ بھی گرفتار ہوئے۔ حضرت زینبؓ نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے فدیہ میں اپنا ہار بھیجا۔ حضورؐ کی خدمت میں وہ ہار پیش کیا گیا۔ یہ وہی ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی زینبؓ کو دیا تھا۔ حضورؐ نے جب اپنی محبوب بیوی کا ہار دیکھا تو جدائی میں آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ صحابہؓ نے حضورؐ کی یہ کیفیت دیکھی تو وجہ جاننا چاہی۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’اگر تم مناسب سمجھو تو میری بیٹی زینبؓ کے شوہر کو رہا کر دو اور اس کا یہ ہار اسے واپس کر دو۔ یہ ہار اس کی ماں کا ہے جو انہوں نے بیٹی کو جہیز میں دیا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے حضور کے فرمان کے مطابق ہار آپؐ کی صاحبزادی کو لوٹا دیا اور ان کے شوہر کو بھی رہا کر دیا۔ حضرت زینبؓ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں اور شہید کر دیں گئیں۔ ان کے بعد ان کی چھوٹی بہنیں حضرت رقیہؓ اور ام کلثومؓ بھی اسی مکہ شہر میں انتقال فرما گئیں۔ حضورؐ نے اپنی تین جوان بیٹیوں کے جنازوں کو کاندھا دیا۔کم سن بیٹوں قاسمؓ اور ابراہیمؓ کی جدائی کا صدمہ بھی دیکھا۔ مکہ و مدینہ کے بیچ مقام ابواء پر آپؐ نے کم سنی میں اپنی والدہ کو قبر میں اترتے دیکھا۔ آپؐ نے حجاز مقدس میں جدائی کے ان گنت غم اٹھائے۔ حضورؐ کی پیدائش کے موقع پر جہاں اس شہر مکہ کی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے وہاں اس شہر کی بے بسی پر رحم بھی آتا ہے جو اپنے محبوبؓ کے امتحانات و آزمائشوں کو دیکھتا رہا اور ایک دن اسکا محبوب یہ شہر چھورنے پر مجبور ہو گیا۔ مکہ اپنے محبوب کی جدائی سے آج بھی اشکبار ہے اور مدینہ محبوب کو پا کر آج بھی خوشی سے نڈھال ہے۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن