جس کی شاخیںہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کُہن کو سرنگوں
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی حقوق ڈے منایاگیا ۔مگر میں سوچ رہی ہوں کہ یہ دن منانا چاہیے تھا یا کچھ عملی اقدام اُٹھانے چاہیے تھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دن صرف پوسٹر لگانے ،میڈیا اور اخبار میں آواز بلند کرنے تک ہی رہ گیا ہے۔اِس دن دانش مند اور حقوق کے علم بردار بلند بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں اور بس۔غریب اور مظلوم کی حالت جوں کی توں رہ جاتی ہے۔اگرلوگوں کے مسائل حل ہو جائیں تو پھر اس دن کو یاد رکھا جائے گا۔اس موقع پر پاک تُرک سکول کی بندش اور اساتذہ کی ملک بدری کا حوالہ دینا چاہوں گی۔عوام کو اگر معیاری تعلیم میّسر آرہی تھی،اور وہاں کے اساتذہ کو اپنی خدمات سر انجام دینے کا موقع مل رہا تھا،تو پھر کیا مصلحت دَر آئی ہے کہ ایک دم سے ہی ایسا فیصلہ کرنا پڑا کہ عوام اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔تُرکی جو کہ ہمارا برادر ملک ہے مگر اُس کے قابل اساتذہ جو اپنے گھروں اور ملک کو چھوڑ کر اس ملک کے بچوں کو تعلیم دے رہے تھے اور یوں اس کے مستقبل کو روشن بنا رہے تھے،اس ملک کے بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے تھے۔ان کے ہاں کوئی تفریق نہیں تھی۔امیر غریب ،مذہب اور کالا گورا سب ان کی نظر میں ایک جیسے طلباءتھے۔پچھلے کئی سالوں سے یہ ادارے اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔پاکستان میں اس کی تقریباً ۸۲ شاخوں میں ۸۰۱ تُرک اساتذہ کام کر رہے تھے،اور دس ہزار طلباءان اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔پچھلے ۱۲ سالوں سے ہم نے نہیں سوچا تھا کہ یہ سکول کس فنڈ سے چلتے ہیں ۔مگر اب ایک دم ہی یہ خیال آرہا ہے۔ان سکولز کے بچے نہ صرف ڈاکٹر ز،انجینئر ز،وکیل اور پائلٹ بن رہے ہیں۔بلکہ ان سکولز کے بچے دوسرے سکولز کے بچوں کی نسبت اسلام اور قومی زبان کے متعلق زیادہ علم رکھتے ہیں۔یہ سکولز پاکستانی بچے بنا رہے ہیں۔جب کہ دوسرے سکولز صرف انگریز بچے بنا رہے ہیں۔پاک تُرک سکولز طلباءکو پاکستانی بچے ہونے کی تربیت دے رہے ہیں۔ان کو قرآن پاک،نماز اور اُردو زبان سب کی تعلیم دی جاتی ہے۔پاک تُرک سکولز کے تُرک اساتذہ نے پاکستانی اساتذہ کو بھی ایسے راستے پر لگایا ہے کہ وہ ہر کام میں طلباءاور طلباءکے والدین سے رابطے میں رہتے ہیں۔لوگ پرائیویٹ سکولز کا رُخ مجبوری میں کرتے ہیں۔کیونکہ سرکاری سکولز میں نہ تو پڑھائی کا معیار اچھا ہے نہ باتھ روم ہیں۔اساتذہ کو تنخواہ مل جاتی ہے اور وہ آئے دن چھٹیوں پر ہوتے ہیں۔سرکاری سکولز کے اساتذہ کبھی کسی بچے کی گردن پر ڈنڈے مار مار کر معذور بنا رہے ہیں۔ان وجوہ کی بنا پر والدین پرائیویٹ سکولز میں بچوں کو داخل کرواتے ہیں۔پرائیویٹ سکولز ان طلباءکو کھیل اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لینے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔اور یوں بچے اچھے شہری بھی بنتے ہیں۔اسی طرح پاک تُرک سکولز نہ صرف بچوں کو تعلیم اور مختلف کھیلوں کے مواقع فراہم کرتے ہیں بلکہ ان سکولز کے اساتذہ طلباءکے گھر وزٹ بھی کرتے ہیں۔بچے کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے اس کے ماحول اور والدین کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ تُرک اساتذہ اپنے سکولز کے بچوں کے ساتھ مل کر ہر مشکل میں اور ہر حادثے میں پاکستان کے لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔وہ زلزلہ زدگان اور سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے ہمیشہ آگے آگے ہوتے ہیں۔حکومت نے ان کی کارکردگی سے متاثر ہوکر۶۰۰۲ءمیں ان سکولز کو ستارہ¿ امتیاز سے نوازا تھا۔۸۰۰۲ءمیں وزیراعظم نے بک آف آنر کا خطاب دیا تھا۔۵۸ ملکوں کے درمیان مقابلے میں اس ادارے نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے گولڈ،سلور اور کانسی میڈل حاصل کئے۔ہمیں پہلے پتا نہیں تھا کہ اس کا مالک کون ہے ؟؟؟ کون فنڈ دے رہا ہے ؟؟؟ ویسے اس سے کیا فرق پڑتا ہے ! پچھلے ۱۲ سالوں سے کیا ہمارے ملک میں اس ادارے سے پڑ ھنے والے طلباءکا کوئی ایسا کام سامنے آیا ہے جو باعثِ فخر نہ ہو بلکہ باعثِ شرمندگی ہو۔کیا بچوں کے والدین سے پوچھا گیا کہ اُن کو ان اساتذہ سے کوئی مس¿لہ درپیش تو نہیں۔اور کوئی ایسی بات طلبا میں نظر آتی ہے جو پاکستان کے اصولوں کے منافی ہو۔اگر ایسا نہیں تھا تو پھر اتنا سخت رویہ کیوں؟؟؟ پاک تُرک اساتذہ نے اپنی مدد آپ کے تحت طلباءکی ماو¿ں کو کھانا پکانے ،انگلش بولنے وغیرہ کے مختلف کورس کروائے۔اور اس دوران بچوں کے متعلق گفتگو بھی جاری رہتی تاکہ بچوں کو سمجھنے میں ماں باپ اساتذہ کو اور اساتذہ ماں باپ کو سمجھا سکیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پرتا ہے کہ اچھے کام کرنے والوں کو نظر انداز کر کے اندھیروں میں پھینک دیا گیا ہے ۔جبکہ رشوت خور ،بے ایمان اور کرپٹ لوگ ہمارے منظورِنظر ہوتے ہیں۔اس وقت پاک تُرک سکولز کے اساتذہ کی کارکردگی دیکھ کر ان کو ایواڈ دینے کی بجائے ان کی محنت،پیار،خلوص کا انعام ملک بدری کی صورت میں دیا جا رہا ہے۔ہمارے برادر ملک کے اساتذہ کی قربانیوں کے بدلے میں کیا ان کو ملک بدری کی سزا دینا درست اقدام ہے؟؟؟ ملک کے بااختیار کار پردازان اور انصاف کے اداروں کے ساتھ انسانی حقوق کے علم برداروں کو سوچنا چاہیے کہ انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں۔اور تُرک اساتذہ کے ساتھ بچوں کے مستقبل کو بھی بچانا چاہیے۔
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پَر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرہ¿ اُفتاد