16 دسمبر 1971ءہماری قومی تاریخ کا وہ بد نصیب دن ہے جب ہمارا مشرقی حصہ ہمارے دشمنوں کی سازشوں اور ہمارے دشمنوں کے زر خرید ایجنٹوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث ہم سے کٹ گیا جدا ہو گیا ۔ قیام پاکستان سے آج تک ہمارے ازلی دشمن بھارت نے قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا ۔ اس نے نہایت مہارت سے مشرقی پاکستان کے باسیوں میں زبان اور کلچر کے نام پر مغربی پاکستان والوں کیخلاف نفرت کو ہوا دے کر علیحدگی کی سوچ کو پروان چڑھایا ۔ بد قسمتی سے ہمارے بہت سے بنگالی بھائی بھی بھارتی چالوں کے اسیر ہو گئے اور انہوں نے بنگالی تہذیب و ثقافت اور بنگالی زبان کے ایشو پر اردو زبان اور مغربی پاکستان کے تسلط کے نام پر علیحدگی کے جذبات خوب بھڑکائے ۔ شیخ مجیب الرحمن جیسا قیام پاکستان کا حامی جب قوم پرستی کا نعرہ لگا کر اٹھا تو مشرقی پاکستان میں اسے خوب پذیرائی ملی اس پر بھارت نے اپنا ہاتھ شیخ مجیب الرحمن کے سر پر رکھ لیا اور اسے ”بنگلہ بدھو“ بنا دیا ۔ پاکستان کی حکومت اور مغربی پاکستان کے سیاستدان و حکمران اور افسر شاہی بروقت صحیح فیصلے نہ کر سکی اور انہوں نے فوجی کارروائی کر کے مشرقی پاکستان کی بغاوت کو بزور طاقت کچلنا چاہا تو بھارت نے موقع غنیمت جانتے ہوئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا ۔ اس سے قبل بھارت کے پالتو غنڈے مکتی باہنی کے نام پر مشرقی پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کر چکے تھے یہ دہشت گرد غنڈے اردو بولنے والوں اور بہاریوں کو پاکستانی قرار دے کر سر عام قتل کرتے ۔ عورتوں اور بچوں کو بندوق کی سنگینوں میں پروتے ان کی بے حرمتی کرتے ۔ جوان لڑکیوں اور لڑکوں کے اعضا کاٹ کر ان کی نعشیں سڑکوں پر پھینکتے ۔ پاکستانی فوجیوں کے پانی کے ذخائر میں زہر ملا دیتے ۔ فوجیوں پر گھات لگا کر حملے کرتے ۔ جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو ان دونوں یعنی بھارتی افواج اور مکتی باہنی کے گٹھ جوڑ نے بالآخر 16 دسمبر 1971ءکو مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے جدا کر کے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے دو ٹکڑے کر دیئے ۔آج یہی درندگی اور بے حمیتی کا مظاہرہ پاکستان میں موجود دہشت گرد اور انکے سہولت کار کر رہے ہیں ۔ جس کے بد ترین مظاہرے کئی مرتبہ رونما ہو چکے مگر سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور نے جس طرح پاکستانیوں کو ہی نہیں عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہ نہایت المناک اور درد ناک ہے ۔ ہر دن کی طرح 16 دسمبر 2015ءبھی ایک عام دن کی طرح طلوع ہوا ۔ ماﺅں نے صبح سویرے نماز فجر کے بعد سکول جانے والے بچوں کے ناشتے کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ یونیفارم استری کر کے سکول کے بیگز تیار کئے اپنے ننھے منے بچوں کے شوز پالش کئے ۔ یوں سج دھج کر یہ صاف ستھرے فرشتوں جیسے بچے آرمی پبلک سکول پشاور روانہ ہوئے کئی بچوں کو ان کے ماما یا پاپا خود سکول چھوڑ کر آئے ۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سکول میں موت بھی گھات لگائے ان کے انتظار میں ہے ۔ سکول لگنے کے چند گھنٹے بعد بھی موت کے فرشتے کا روپ دھارے چند خوفناک دہشت گرد سکول انتظامیہ کی بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گولیوں کی گھن گرج کے ساتھ سکول میں داخل ہوئے ۔ یہ جہنم کے وہ کتے تھے جنہوں نے جنت کی راہوں کے مسافروں کو شہید کر کے دنیا اور آخرت کا بدترین عذاب اپنے لئے خرید لیا ۔ جس طرح ان درندوں نے سکول جیسی جائے امن کو جہنم زار بنایا بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح جمع کر کے گولیوں سے بھون ڈالا اس طرح تو ایک مسلمان کسی جانور کو ذبح کرتے ہوئے نہیں کرتا ۔ وہ بھی اسلامی احکامات کا اتنا ادراک رکھتا ہے کہ چھری جانور کے سامنے تیز نہیں کرتا ۔ ذبح ہونے والے جانور کو دوسرے جانور سے علیحدہ کرتا ہے ۔ مگر یہ بد بخت خطرناک اسلحہ لہراتے پھول جیسے بچوں پر ٹوٹ پڑے ۔ انہیں مارتے دھکیلتے ہوئے مذبحہ خانے میں لے گئے۔ اب وہ کلاس روم کہلانے کے مستحق کمرے رہے کب تھے ۔ جہاں بم مار کر تمام کرسیوں ، ٹیبلوں کو یہ ظالم درندے جلا چکے تھے ۔ ان بچوں کے کلمہ پڑھنے ، خدا اور رسول کے نام پر فریاد کرنے پر یہ درندے ہنستے قہقہے لگاتے ہوئے ان پر گولیاں برسانے لگے ۔ پھر یہی نہیں ان بچوں کے نعشوں کو اپنے پیروں سے ٹھوکر مار مار کر دھکیلتے رہے کہ کوئی بچہ زندہ تو نہیں اگر کسی زخمی بچے میں زندگی کی رمق بھی پاتے تو اسکے سر اور سینے کو نشانہ بنا کر گولیاں برساتے ۔ ان پھول جیسے بچوں کو بچاتے ہوئے جن خاتون ٹیچروں نے اپنی جان تک قربان کی وہ بھی دنیا و آخرت میں سرخ رو ہو گئیں ۔ آج کے دن یہ دونوں سانحات یاد آ کر پوری قوم کو سوگوار کر جاتے ہیں ۔ مگر ان میں ایک عزم بالجزم ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم دشمن درندوں کو کیفر کرادر تک پہنچائے بغیر چین نہیں لیں گے ۔ جب تک ایک بھی دہشت گرد یا ان کا سرپرست و سہولت کار موجود ہے ضرب عضب جاری رہے گا ۔ شہیدوں کا لہو ضائع ہونے نہیں دیا جائے گا ۔