16دسمبر پاکستان کے عوام کیلئے سیاہ، المناک اور خون آلود دن ثابت ہوا۔ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا اور 2014ء میں پشاور میں معصوم اور بے گناہ بچوں کا خون بہایا گیا۔ سینکڑوں غنچے بن کھلے مرجھا گئے۔پشاور سانحہ کا غم اور الم اس قدر گہرا ہے کہ برسوں تک نہیں بھلایا جاسکے گا۔معصوم بچوں کی شہادت نے پوری قوم کو متحد کردیا تھا، یہ اتحاد وقتی ثابت ہوا آج قوم پھر بری طرح انتشار کا شکار ہے، نواز لیگ اور تحریک انصاف پھر دست و گریباں ہیں۔ برداشت کا مادہ سیاست سے معدوم ہوتا جارہا ہے۔ سپیکر نے خود کو کمزور ثابت کیا۔ کل کے ہنگامے کو آسانی سے روکا جاسکتا تھا مگر سپیکر نے غیر جانبدار رہنے کے بجائے خود کو ایک پارٹی کا کارکن ثابت کیا۔ فوج آج بھی دہشت گردوں کیخلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ جنرل راحیل جیسے جذبے سے نئی فوجی قیادت معمور ہوئی تو دہشتگردی کے خلاف جنگ منطقی انجام تک ضرور پہنچے گی۔
سقوط ڈھاکہ پر بہت کچھ لکھا کیا مگر پاکستان ٹوٹنے کی اصل کہانی عوام کی نظروں سے اوجھل ہی رہی۔اکثر مورخین اور دانشوروں نے اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت سقوط ڈھاکہ کی کہانی لکھی۔ سقوط ڈھاکہ کے پس منظر سے آگاہی رکھنے والے عینی شاہد میجر (ر) شبیر احمد نے (جو بھارت کی قید میں رہے اور طویل عرصہ ایڈیشنل ڈی جی آئی بی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے) خاموشی توڑنے اور پاکستان ٹوٹنے کی اصل کہانی بیان کرنے کا قصد کیا ہے۔ میجر صاحب کے ساتھ میری نشست ہوتی رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کیے تھے اسے مسلمانوں کا نیا توانا اور مستحکم مرکز گوارا ہی نہ تھا۔ انگریز اور ہندو برصغیر کے مسلمانوں کو مکمل آزادی اور خودمختاری نہیں دینا چاہتے تھے مگر دو قومی نظریہ جو صرف ایک نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک زندہ اور اٹل حقیقت تھا۔ قائداعظم نے اسی زندہ اور لازوال حقیقت کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ لڑا اور انگریزوں اور ہندوئوں کو قیام پاکستان پر مجبور کردیا۔ سازش اور گٹھ جوڑ کے دوسرے مرحلے میں یقینی بنایا گیا کہ مسلمانوں کو ایک کٹا پھٹا لولہ لنگڑا اور اپاہج پاکستان دیا جائے جو آزادی کے چھ ماہ بعد ہی بھارت میں دوبارہ شامل ہونے کی بھیک مانگنے لگے گویا پاکستان کی آزادی میں ہی اسکے ٹوٹنے کے اسباب شامل کردئیے گئے تھے۔ میجر صاحب نے اوریجنل سورس پر مبنی ایج وی ہڈسن کی معتبر کتاب ’’گریٹ ڈیوائٹڈ‘‘ کا حوالہ دے کر بتایا کہ قائداعظم نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے استفسار پر واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اگر بنگال کو تقسیم نہ کیا جائے اور اسے مسلمانوں کی علیحدہ ریاست بنادیا جائے تو ان کیلئے یہ خوشی کی بات ہوگی۔ علامہ اقبال کے خطبات، 1940ء کی قرارداد اور چوہدری رحمت علی کے تصور پاکستان میں ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں کی بات کی گئی تھی مگر انگریزوں اور ہندوئوں نے بنگال اور پنجاب کے ترقی یافتہ علاقے بھارت میں شامل کرکے معاشی طور پر انتہائی کمزور مسلم ریاست قائم کردی جو تادیر زندہ رہنے کے اہل نہ تھی۔
آزاد ریاست کا نظم ونسق چلانے کی ذمے داری ان ’’کالے انگریزوں‘‘ کے سپرد ہوئی جو انگریز ذہنیت کے تربیت یافتہ تھے اور اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھنے کی بجائے عوام کا حاکم سمجھتے تھے۔ مسلم لیگ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی جماعت تھی جس کا مقصد سیاسی تھا اور اس نے برصغیر کے مسلمانوں کا سیاسی اتحاد قائم کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کے کمزور ہونے سے سیاسی رشتہ بھی کمزور پڑگیا۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء نے تحریک پاکستان کے نتیجے میں جنم لینے والے سیاسی اور جمہوری رشتے کو مکمل طور پر ختم کردیا۔ مذہب کی بنیاد پر اگر ریاستوں کو متحد رکھنا ممکن ہوتا تو آج دنیا میں 50سے زائد مسلمان ملک نہ ہوتے۔ بھارت نے بنگالیوں میں نفرت کے بیج بونے کیلئے منظم منصوبہ بندی کی بنگالی زبان، تعلیم اور ثقافت کو حربوں اور ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کیا گیا۔ہندو اساتذہ بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے نئی بنگالی نسل کی ذہن سازی کرتے رہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اپنی یاداشتوں پر مشتمل کتاب (آکسفورڈ) میں اعتراف کیا کہ اس نے 1961ء میں بھارتی آشیر باد سے بنگلہ دیش کی علیحدگی کیلئے خفیہ تنظیم قائم کی تھی۔ میجر صاحب کیمطابق مجیب الرحمن کو بھارت سے 1951ء سے 25ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا۔ ایک جانب بھارت مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں مغربی پاکستان کیخلاف نفرت پیدا کررہا تھا اور دوسری جانب مغربی پاکستان کی سول ملٹری اشرافیہ نے بنگال سے تعلق رکھنے والے تین وزیراعظم برطرف کرکے اور بنگالی عوام کو مساوی مواقع فراہم نہ کرکے بلکہ ان کا استحصال کرکے نفرت اور احساس محرومی کے جذبات کو ہوا دی جس کی ذمے داری لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد آنیوالے تمام حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ معیاری گڈ گورنینس سے مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد رکھا جاسکتا تھا۔ میجر صاحب نے بھارتی آرمی چیف جنرل مانک شاہ کے اندرا گاندھی اور ان کی کابینہ کے اہم وزراء سے ایک یادگار مکالمہ کی فوٹو سٹیٹ تقسیم کیں جس کیمطابق مانک شاہ نے اپریل 1971ء میں اندرا گاندھی سے کہا کہ انہوں نے جب بی ایس ایف، سی آر پی اور را کو مشرقی پاکستان کے اندر بھیجنے اور بنگالیوں کو بغاوت پر اکسانے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت آرمی چیف سے مشورہ نہیں کیاگیا تھا۔ اب آپ جنگ کا حکم دے رہی ہیں جو فی الحال ممکن نہیں اور جنگ کی تیاری کیلئے وقت کی ضرورت ہے۔ میجر صاحب نے بتایا کہ سیاسی مسئلے کو جنگ سے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاک فوج کے پاس نہ تو مناسب وسائل تھے اور نہ ہی لاجسٹک سپورٹ تھی۔ مقامی آبادی بھی مخالف تھی مکتی باہنی افواج پاکستان اور غیر بنگالیوں پر حملے کررہی تھی۔ ان حالات میں دو ہی آپشن تھے ساری فوج شہید کرالی جاتی یا سرینڈر کردیا جاتا۔ جنرل نیازی نے حالات کے مطابق فیصلہ کیا۔ عالمی طاقتوں نے خفیہ طور پر بھارت کی حمایت کی اور بنگلہ دیش کے قیام کیلئے کردار ادا کیا۔
میجر صاحب نے کہا ملک بیانات اور نعروں سے نہیں بلکہ اقدامات اور فیصلوں سے ٹوٹتے ہیں۔ اگر مجیب الرحمن کے چھ نکات تسلیم کرلیے جاتے تو اسکے نتیجے میں پانچ پاکستان بن جاتے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں پہلے ہی علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی تھیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر) ضیاء الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے مزید حصے بخرے کرنے کیلئے بھارتی سازشیں آج بھی جاری ہیں۔ پاک فوج کو جمہوریت کا تحفظ اور دفاع کرنا چاہیئے۔ بنگالی افواج را کی مداخلت سے تنگ آچکی ہیں۔ بنگالیوں کی اکثریت پاکستان سے جذباتی لگائو رکھتی ہے دونوں ملک ایک بار پھر متحد ہوسکتے ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے سیاسی اشرافیہ نے سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق سیکھا نہ اے پی ایس کا اندوہناک واقعہ ان میں اتحاد پیدا کرسکا۔ آج حالات بھارت کی لائن آف کنٹرول پر جارحیت اور ملک کے اندر دہشتگردی کی وجہ سے بری طرح بگڑے ہوئے ہیں۔فوج ضرب عضب آپریشن میں مصروف ہیں، ایسے میں سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ آج قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے مگر ہر کوئی اپنی اپنی سیاست دکان سجائے ہوئے ہیں قومی مفاد کی کسی کو پروا نہیں آتی۔
سقوط ڈھاکہ، سانحہ اے پی سی اور سیاسی اشرافیہ
Dec 16, 2016