یومِ سقوط ڈھاکہ 16 دسمبر سے 2 دِن پہلے، 14 دسمبر کو دو "Operations" ہُوئے۔ ایک آپریشن دُنیا کی بہترین ’’پاک فوج‘‘ کے غازِیان صف شِکن نے اسلام دشمن اور پاکستان دشمن دہشت گردوں اور دوسرے جرائم کاروں کے خلاف (شہرِ قائداعظم) کراچی میں کِیا اور دوسرا قائداعظم کے بچے کھچے پاکستان کے دارالحکومت ’’اسلام آباد‘‘ جمہورؔ کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ارکان نے اپنی اپنی اہلیت کے مطابق اپنی نظریاتی مخالف پارٹیوں کے خلاف کِیا۔ ہماری فوج جب بھی اسلام دشمن اور پاکستان دشمن عناصر کے خلاف کوئی آپریشن کرتی ہے تو اُس کا مقصد نیک ہوتا ہے اور 14 دسمبر کو ایوان میں قومی پارٹیوں کے منتخب ارکان نے ایک دوسرے کا جو آپریشن کِیا۔ اُس کے مقصد کو بھی نیکؔ ہی سمجھنا چاہیے۔ جِس طرح کوئی ماہر ڈاکٹر (Surgeon) کسی مہلک مرض میں مُبتلا مریض کی جان بچانے کے لئے (اُس کی اور اُس کے لواحقین کی رضا مندی سے) اُس کا آپریشن کرتا ہے۔ اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہماری قومی اسمبلی کے سارے ارکان ماشاء اللہ صحت مند ہیں۔
’’ جمہوریت کے حُسن کا نِکھار؟‘‘
اِس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ’’اگر کوئی رُکن قومی اسمبلی بیمار ہو جائے تو اُسے (بعض اوقات اُس کے اہلخانہ کو بھی) آئین اور قانون کے مطابق اندرون اور بیرونِ ملک علاج کرانے کے لئے قومی خزانے سے علاج کرانے کی سہولت حاصل ہے۔ ہمارے مختلف اُلخیال ارکان قومی اسمبلی کی طرف سے پرانے دَور کے کسی غیر رُکن اسمبلی شاعر نے کہا تھا کہ ؎
’’ خُونِ دِل دے کے نکھاریں گے رُخِ برگِ گُلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے ‘‘
’’ بدترین جمہوریت اور بہترین آمریت؟‘‘
کسی مغربی مُفکّر کا قول ہے کہ ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے۔‘‘ ہمارے سیاستدان جن میں ’’مشرقی مُفکّرین‘‘ (سیاسی مولوی صاحبان) بھی شامل ہیں، اِس قول کو ’’قولِ فیصل‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے یہاں بار بار مختلف رنگوںکی ’’بدترین جمہوریت‘‘ کو بچانے (قائم رکھنے) کے لئے ہر قسم کی قربانی کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں لیکن اُس مغربی مُفکّر نے یہ کیوں نہیں بتایا تھا کہ ’’کسی مُلک میں کتنی مدت تک ’’بدترین جمہوریت‘‘ جاری رہے؟ اور جمہور کب ’’بہترین آمریت‘‘ کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعائیں مانگنا شروع کریں؟ یا آسمانوں سے حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کا انتظار کریں؟ تو معزز قارئین و قاریات! یہ کیوں نہ سمجھ لِیا جائے کہ 14 دسمبر کو ایوانِ قومی اسمبلی میں مختلف الخیال سیاستدانوں کے (زبان و بیان سے) ایک دوسرے کا آپریشن کرنے کا مقصد نیک تھا۔ وہ یہ کہ ’’بدترین جمہوریت‘‘ کو بہترین جمہوریت کی شکل دی جائے اور وہ نئی نویلی دلہن کا رُوپ دھار لے!
سپِیکر سرجن سر؟‘‘
’’ سپِیکر سرجن سر!‘‘ سردار ایاز صادق صاحب بھی ’’بدترین جمہوریت ‘‘ کے آپریشن کے کامیاب ڈاکٹر (معالج) ثابت ہُوئے۔ اُنہوں نے قائد حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ سے مخاطب کرتے ہُوئے ایوان کی بلکہ پوری قوم کی معلومات میں اضافہ کِیا کہ "Rules"کے مطابق معاملہ عدالت میں ہو تو ایوان میں تحریکِ استحقاق کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘ سپیکر سرجن نے یہ بھی بتایا کہ ’’مَیں نے اپنے "Chamber" میں اپنی ’’ذاتی کُرسی‘‘ پر بیٹھ کر "Ruling" (حُکم ناطق/ فیصلہ کُن) دے دی یا دے دِیا ہے‘‘ آئین کے تحت سپیکر سرجن سر! کو ’’ خدائے سُخن‘‘ مِیر تقی مِیرؔ کی طرح لا محدود اختیارات حاصل ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ ؎
’’سارے عالم پر ہُوں مَیں چھایا ہُوا
مُستند ہے میرا فرمایا ہُوا‘‘
اِس کے باوجود اگر حزبِ اختلاف کے بعض ارکان نے سپیکر کی رولنگ پر احتجاج کرتے ہُوئے قومی اسمبلی کی کارروائی کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور سپیکر ڈائس کا گھیرائو کرنے کی کوشش کی تو اُن کی مرضی! مَیں تو "Out Sider" ہُوں۔ مَیں کیسے دخل دے سکتا ہُوں؟
وزیراعظم کی سیاسی تقریریں؟
7 دسمبر کو پانامہ لِیکس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں جنابِ وزیراعظم کے وکیل جناب سلمان بٹ نے یہ مؤقف اختیار کِیا تھا کہ ’’پانامہ لِیکس کیس کے سِلسلے میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی کے ایوان میں جو تقاریر کی تھیں وہ سب کی سب سیاسی تقریریں تھیں۔ سیاسی لوگ سیاسی تقریریں کرتے ہیں۔ اُن تقریروں کو عدالتی ریکارڈ میں شامل نہیں کِیا جا سکتا۔‘‘ اِس پر چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی نے کوئی ’’حتمی فیصلہ‘‘ نہیں دِیا۔ اب پانامہ لِیکس کیس کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کا نیا لارجر بنچ بنے گا تو جنابِ عمران خان، شیخ رشید احمد اور حزبِ اختلاف کے دوسرے قائدین یا اُن کے وُکلاء کو اپنے دلائل دینے کا موقع ملے گا۔ اِس دوران وزیراعظم صاحب قومی اسمبلی کے ایوان میں سیاسی تقریریں کیوں نہیں کرتے رہیں گے؟ شاعر نے کہا تھا ؎
’’ سیاست کو رکھو، ہمیشہ عزیز
سیاست سے بڑھ کر ، نہیں کوئی چیز‘‘
وزیراعظم کا "Vision" اور پاکستان ٹیلی وِژن؟
وفاق اور پنجاب کے وفاقی وزراء اکثر جنابِ وزیراعظم کے "Vision" ( مدّبرانہ بصِیرت / نُورِ بصِیرت / بہت روشن اور واضح تصّور) کی تعریف کرتے رہتے ہیں اور وزیرِ صاحب کوبھی اپنے "Vision" پر ناز ہے۔ 14 دسمبر کو ہی جناب وزیراعظم نے کوئٹہ میں اپنے "Vision" کی خود تعریف کرتے ہُوئے کہا کہ ’’پاکستان کی ترقی کا کام وہی شخص کرتا ہے جِس کا اپنا کوئی ’’وِژن‘‘ ہو۔‘‘ علاّمہ اقبال نے کہا تھا کہ ؎
’’ میرا نُورِ بصِیرت عام کر دے!
مَیں سوچتا ہُوں کہ اگر علاّمہ صاحب کے اُس پیغام کی روشنی میں وزیراعظم ہائوس اور مختلف محکموں میں جنابِ وزیراعظم کے میڈیا منیجرز بار بار وزیراعظم صاحب کے "Vision" کو عام کرنے کے لئے پاکستان ٹیلی وِژن کے حُکّام کو یاد دہانی کراتے رہیں تو کِتنا اچھا ہو؟
خواجہ محمد رفیق ’’شہید‘‘ کی یاد؟
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنے خطاب میں چاروں طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہُوئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں قتل ہونے والے اپنے والدِ محترم خواجہ محمد رفیق ’’شہید‘‘ کو بھی یاد کِیا اور ساری پیپلز پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے کو یاد بھی دِلایا لیکن اب کیا کِیا جائے کہ جنابِ بھٹو کو تو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں بڑے ملزم کی حیثیت سے پھانسی کی سزا مِل چکی ہے اور پیپلز پارٹی کے قائدین اور کارکن اُنہیں بھی ’’شہید‘‘ کہتے ہیں۔ جنابِ بھٹو اگر زندہ بھی ہوتے تو انہیں ایک ہی جُرم میں دوسری بار سزا تونہیں دی جا سکتی تھی ؟ خواجہ محمد رفیق ’’شہید‘‘ سے میرا تعلق 1966ء سے تھا جب اندرون شہر خواجہ صاحب کے پڑوس میں میری شادی ہُوئی تھی۔ اُن دِنوں ہم پیدل سیر کِیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت کرے؟
’’پیپلز پارٹی ۔ فرینڈلی اپوزیشن؟‘‘
سیّد خورشید شاہ اور خواجہ سعد رفیق کی تقریروں کے بعد کِیا آئندہ بھی پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی ’’ فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا کرے گی؟ کیا جنابِ زرداری کا وطن واپسی کا راستہ ہموار ہو جائے گا ؟ یا دونوں جماعتیں ایک دوسرے کا اِسی طرح آپریشن کرتی رہیں گی؟ پھر عمران خان کی طرف سے جاری آپریشن کا کیا ہو گا؟ اور اگر کبھی کسی اور نے ’’بدصورت جمہوریت‘‘ کے خلاف کوئی بڑا آپریشن کر دِیا تو؟