سقوط ڈھاکہ، سیاستدانوں نے پراپیگنڈا کا مقابلہ نہیں کیا، فوج کو تنہا چھوڑ دیا: راجہ نادر

فیصل آباد (انٹرویو: احمد جمال نظامی)1971ء میں مشرقی پاکستان سے علیحدگی کے وقت آپریشن کے کمانڈر انچیف اور مشرقی پاکستان کے مختلف محاذوں پر مکتی باہنی سے جنگ لڑنے والے میجر(ر) راجہ نادر پرویز خاں سابق وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے باری سال کے مقام پر پاک فوج کے ساتھ مقابلے کے دوران جو مکتی باہنی کے دو اہم افراد حسین ارشاد اور ضیاء الرحمن فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور پھر یہ دونوں ہی بنگلہ دیش کے صدر بنے۔ فال آف ڈھاکہ پر سرنڈر کرنے کی بجائے میں نے باری سال کے مقام پر دریا میں اپنی سٹین گن پھینک دی اور اپنے ضمیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا جس گن نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا میں بھی اس کو دھوکہ نہیں دوں گا۔ انہیں سانحہ مشرقی پاکستان پر گرفتار کر کے ابتدائی طور پر باری سال کے ایک سکول میں رکھا گیا پھر بھارتی فوج نے فتح گڑھ جیل میں رکھا جہاں انہوں نے اپنے فوجی ساتھیوں کے ہمراہ جیل میں موجود ایک بند اور غیرفعال لیٹرین میں فلش اتار کر سرنگ کی کھدائی شروع کی۔ میں، جنرل طارق پرویز جو ان کے بہنوئی ہیں اور بعدازاں کورکمانڈر کوئٹہ رہے، کیپٹن نور احمد قائم خانی اور ظفر اقبال نے چھریوں اور لکڑی کی ٹہنیوں سے سرنگ کھودنی شروع کی۔ روز باتھ روم کا فلش اٹھاتے، مٹی کھودتے اور بعدازاں فلش اوپر رکھ دیتے اور مٹی اپنی جیبوں میں ڈال کر جیل کے برآمدے میں پھینک کر اوپر پانی چھڑک دیتے تاکہ کسی کو علم نہ ہو۔ یہ سرنگ کھودنے میں ایک سال کا عرصہ لگا۔ یہ سرنگ 210فٹ لمبی تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے نوائے وقت/دی نیشن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راجہ نادر پرویز نے کہا اس سرنگ کی کھدائی میں ان کے ساتھ کیپٹن شوکت جاوید نے اہم کردار ادا کیا لیکن وہ ہمارے ساتھ سرنگ سے فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ کیپٹن شوکت جاوید بعدازاں آئی جی پنجاب پولیس بھی رہے۔ نادر پرویز نے بتایا وہ سرنگ سے فرار ہو کر ٹرین کے ذریعے دہلی پہنچے جہاں وہ 15روز حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کے دربار پر بھیس بدل کر رہے۔ اس دوران بھارتی لوک سبھا میں شدید احتجاج شروع ہو گیا کہ فتح گڑھ جیل سے فرار ہونے والے پاکستانی فوجی کہاں ہیں اور کیوں گرفتار نہیں کئے جا رہے پھر ہم یو پی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر نیپال کے بارڈر کے پاس پناہ گزین ہوئے جہاں گاؤں میں رہنے والے مسلمانوں نے ان کو پناہ دی۔ دیہاتی مسلمانوں نے انہیں بعدازاں بھارت سے نیپال کا بارڈر جو اوپن تھا پار کرنے کا راستہ بتایا جس کے ذریعے وہ نیپال پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور نیپال میں ان کا اس وقت کے ملٹری اتاچی کرنل مجیب الرحمن نے استقبال کیا۔ یہ وہی مجیب الرحمن ہیں جو بعدازاں جنرل مجیب الرحمن بنے اور ضیاء الحق مرحوم نے انہیں اپنے دور میں سیکرٹری انفارمیشن تعینات کیا۔ نادر پرویز نے بتایا نیپال میں ملٹری اتاچی کے ذریعے وہ پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے کراچی پہنچے جہاں ان کا پرتپاک اور شاندار استقبال کیا گیا۔ انہوں نے کہا جیل سے فرار ہونے میں ہم تین فوجی افسر کامیاب ہوئے تھے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا فتح گڑھ سے فرار پر کئی مضامین اور رسائل شائع ہوئے۔ پورے ملک میں پرجوش استقبال ہوا اور عوام آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ ہمیں خراج تحسین پیش کرتی رہی۔ فتح گڑھ جیل میں چھوٹے فوجی سپاہیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کو ٹارچر کرنے کے علاوہ کھانے کی بندش جیسے جنیوا کنونشن کے برعکس ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا سرنگ کھود کر فرار ہونے کے باوجود سقوط ڈھاکہ کا زخم ہمارے دلوں سے نہیں ختم ہو سکا۔ انہوں نے کہا پاک فوج پر بنگلہ دیش میں زیادتی کرنے کے الزام لگتے ہیں یہ سب بھارتیوں کا پراپیگنڈا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ یہ اس لئے بڑھا کہ پاکستان میں ایسے پروپیگنڈے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ اور بھی تھی کہ 1971ء کے بعد ہمارا مورال ویسے ہی بہت کم ہوگیاتھا۔ 90ہزار فوجی قید تھے۔ ملکی معیشت متاثر تھی۔ فوجیوں سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ ہم وہ جنگ لڑ رہے تھے جس میں پروپیگنڈا بڑھا چڑھاکر پیش کیا جارہاتھا اور بدنامی فوج کی ہو رہی تھی مگر سیاسی لیڈرشپ نے سامنے آ کر اس پراپیگنڈا جنگ کا مقابلہ نہیں کیا۔ سب نے عالمی پروپیگنڈا مہم پر پاک فوج کو تن تنہاچھوڑ دیا۔ یہ سب سیاسی قیادت کی بدنیتی تھی جب صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو فوج کو حالات سونپ دیئے گئے۔ بنگلہ دیش میں ہزاروں بے گناہ بنگالیوں کے پاک فوج کے ہاتھوں قتل عام کی ساری باتیں محض پروپیگنڈا ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے اپنی کتاب میںلکھا ہے بنگلہ دیش میں پاک فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل عام پر بہت شورشرابا کیا جاتا ہے۔ ایک جگہ کھدائی کی گئی مگر صرف بیس لاشیں برآمد ہوئیں اور یہ بھی علم نہ ہو سکا انہیں مکتی باہنی نے قتل کیا ہے یا پاک فوج نے لہٰذا یہ سب پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا تھاجسے روکنا حکومت کاکام تھا نہ کہ فوج کا۔ اقتدار کی جنگ نے ملک کو دولخت کردیا اور بدنامی فوج کی ہوئی۔سقوط ڈھاکہ کے تین کردار تھے مجیب الرحمن، اندراگاندھی(سب کچھ بھارتی ایما پر ہوا، مکتی باہنی کو اسلحہ اور رقم بھارت فراہم کرتا رہا) اور ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان جو ہمارا دایاں بازو تھا ہم سے الگ ہوگیا۔ دراصل جب انتخابات کا انعقاد کرایاگیا تھا تو جس کی فتح ہوئی تھی اسے حکومت دی جانی چاہیے تھی۔ فوجی ایکشن درست نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان کے تمام مسائل کاحل سیاسی طریقے سے ناگزیر تھا۔ ہم بنگال میں کیسے لڑ سکتے تھے جب وہاں صرف 14بٹالین فوج تھی۔ ایک طرف سمندر تھا اور تین طرف بھارتی فوج کے ساتھ جنگ شروع ہو چکی تھی۔ جب مشرقی پاکستان میں سرنڈر کیا گیا تو بہت سارے فوجیوں نے سرنڈر کرنے سے انکار کردیا۔ کچھ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ کچھ جنگلوں میںچلے گئے۔ بھٹو نے اقوام متحدہ میں بڑھک لگائی تھی گھاس کھائیں گے ہزارسال لڑیں گے اور پولینڈ کی قرارداد پھاڑ دی تھی۔ روس نے بھارت کے ساتھ سولہ سالہ دفاعی معاہدہ کرلیاتھا ایک دوسرے پر حملے کی صورت میں دونوں دفاعی عمل میں شامل ہوں گے مگر ہمارے لئے امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ تک نہ آیا۔ سب ڈرامہ نکلا۔ فوج کو مشرقی پاکستان میں گمراہ کیا جاتارہا۔ حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے تھے۔ جی ایچ کیو سے آخری پیغام آیا جس فوجی کو جو صورتحال نظر آئے وہ اس کے مطابق اقدام کرے۔ افسوس سرنڈر کرنے کے بعد جورضاکار پاک فوج کے شانہ بشانہ تھے ان کو ہزاروں کی تعداد میں مکتی باہنی کے گوریلوں نے قتل کیا لیکن آج تک ہمارے ملک میں حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی۔ یحییٰ خان کے کردار کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کمزوریاں ہر شخص میں ہوتی ہیں۔ یحییٰ خان نے وعدے کے مطابق انتخابات کرائے تھے مگر سیاستدانوں نے اسے بھی استعمال کیا۔ بھٹو کے نعرے ادھر تم ادھر ہم نے رہی سہی کسر نکال دی اور مشرقی پاکستان میں افراتفری اور انتشار قابو سے باہر ہو گیا۔ مجیب الرحمن کی بار بار گرفتاری نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور مکتی باہنی مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے افسران اور ملازمین کو اہل خانہ کے ہمراہ قتل کرنے لگے۔ خون کی اس یلغار میں نقصان پاکستان کا ہوا اور سیاست دانوں کی اقتدارکی ہوس نے ملک کو دولخت کردیا۔ راجہ نادر پرویز نے بتایا باری سال کے علاقے میں مکتی باہنی کا آخری مضبوط کنٹرول تھا۔ باری سال آپریشن کے دوران میں نے میجر کی حیثیت سے اپریل یا مارچ 1971ء میں لیڈ کیا۔ اس آپریشن میں سارے آرمی یونٹس شامل تھے۔ باری سال کے مقام پر تین سے چار سو بہاری فیملیز کو سکول کی بلڈنگ میں قید رکھاگیاتھا۔ ہم نے ان کو وہاں جاکر چھڑواناتھا ہم رات تین بجے باری سال کے مقام پر پہنچے اور ابھی لینڈ کیا ہی تھا کہ ہم پر فائر کھول دیئے گئے۔ نیوی کے افسران اس دوران زخمی ہو گئے۔ ایئرفورس آئی مگر ہمارے کمانڈوز بروقت نہ پہنچ سکے تاہم باری سال کے مقام پر شروع میں مزاحمت تھی بعد ازاں نہ ہوئی۔ ہم نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکول میںپہنچ کر ان لوگوں کو آزاد کرایا تو اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونا شروع ہو گئے۔ اگلے دن میجر جنرل رحیم خان آئے انہیں میں نے ساری بریفنگ دی۔ بعد ازاں باری سال ہماری رجمنٹ کاہیڈکوارٹر بن گیا۔ انہوں نے کہا مشرقی پاکستان جیسے حالات سے بلوچستان وغیرہ میں گریز کیاجانا چاہیے وگرنہ ماضی کے تلخ حقائق اپنے آپ کو خدانخواستہ دہرا سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن