اسلام آباد (بی بی سی اردو) سوشلستان میں سپریم کورٹ، عمران اور انصاف یا تحریکِ انصاف صفِ اول کا ٹرینڈ ہے اور پوچھا یہ جا رہا ہے کہ جمعے کو کس کا جنازہ نکلا؟ 'انصاف کا یا تحریک انصاف کا'؟اس حوالے سے جہاں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں اس بات کا بھی کہ اس فیصلے کے پاکستان اور اس کے سیاسی منظرنامے پر کیا اثرات ہوں گے۔ اگر پی ٹی آئی کے فالوورز کی بات سنی جائے تو وہ عمران خان کے بچ جانے کی خوشیاں منا رہے ہیں مگر اس بات پر کچھ کہنے کو تیار نہیں کہ پارٹی کے سرکردہ رہنما نااہل ہو گئے ہیں۔ اگرمسلم لیگ ن کے حامیوں کی رائے دیکھی جائے تو ان کے خیال میں ’سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کا جنازہ نکال دیا' اور انھیں جہانگیر ترین کی وکٹ گرنے کی خوشی تو ہے مگر نواز کے بدلے عمران کی وکٹ نہ گرنے کا دکھ بھی ہے۔ مگر میاں ناصر محمود نے ساری صورتحال پر تبصرہ لکھا کہ ’جیت اسٹیبلشمنٹ کی ہوئی۔ باقی آپ سمجھ تو گئے ہوں گے‘۔ شفقت نے ٹویٹ کی کہ ’یہ تو وہی ہوا ہے کہ آپ پاس ہو جائیں اور اس دوست کی سپلی آ جائے۔ جس نے پارٹی کروانی تھی'۔ رضی طاہر نے لکھا کہ ’عمران کو بڑی اخلاقی فتح نصیب ہوئی، ماروی سرمد نے لکھا ’عمران کی نااہلی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان کے آج کے فیصلے کا مطلب ہے کہ نواز شریف کے خلاف دیا گیا فیصلہ پانچ رکنی بینچ کا کمزور بنیادوں پر دیا گیا فیصلہ تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنما سید علی رضا عابدی نے لکھا ’سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پاس کوئی اور گنجائش نہیں کہ وہ جہانگیر ترین کی بنیادی رکنیت معطل کر دے۔ داؤد احمد نے لکھا جو لوگ ’امید لگائے بیٹھے تھے کہ عمران نااہل ہوں گے تو ایسا کبھی بھی ہونے والا نہیں کیونکہ یہ سہولت صرف شریف فیملی کے لیے میسر ہے‘۔شہریار مرزا نے لکھا ’ایک سیاسی جماعت جس کا تمام تر پلیٹ فارم دیانت پر قائم ہے اس کے جنرل سیکرٹری کو بدیانت ہونے پر نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ مٹھائی بانٹو۔