سقوطِ ڈھاکہ ایک ایسا المیہ ہے جسے پاکستانی قوم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اُس دن پاکستان کا وہ حصہ جو آج بنگلہ دیش کہلاتا ہے ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ مشرقی حصے کے مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان میں شاندار کردار سر انجام دیا تھا اور ان کی قربانیوں کا حصولِ پاکستان میں بہت بڑا حصہ تھا۔ لیکن تخلیقِ پاکستان کے محض 24 سال بعد ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ اس علیحدگی کے کئی عوامل ہیں جن میں حکمرانوں کی نالائقیاں، حصولِ اقتدار کیلئے کشمکش، محلاتی سازشیں اور مشرقی حصے کو نظرانداز کرنا بھی شامل ہیں اور اس سے کسی شخص کو بھی انکار نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر بھارتی سازشیں جنہوں نے صورتحال کو اس انجام تک پہنچایا۔
تقسیم ہند کے بعد سے بھارتی حکمران اس کوشش میں تھے کہ وہ پاکستان کو انتہائی درجہ غیر مستحکم ہی نہیں بلکہ اس کے حصے بخرے کر دیں۔ اس مقصد کیلئے سازشوں کے جال بُنے گئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان 1000 میل سے زیادہ کا فاصلہ تھا جس میں تین اطراف بھارت اور چوتھی طرف خلیج بنگال تھا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی کل آبادی کا 56 فیصد تھی۔ سب سے پہلے ایک غلط فہمی قومی زبان کے حوالے سے پھیلی جس کو بہت زیادہ ہوا دی گئی حالانکہ اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ خالقِ پاکستان اسمبلی نے کیا تھا جس میں بڑی نمائندگی بنگلہ بولنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ جہاں تک معاشرتی عدم مساوات کو ہوا دئیے جانے کا تعلق ہے تو ایسے مسائل دیگر ممالک میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں لیکن قومیں انہیں خوش اسلوبی سے حل کر لیتی ہیں۔ جبکہ مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان بے تحاشہ غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں۔ یہ کام مشرقی پاکستان میں موجود انڈین لابی کے نام نہاد صہافیوں اور بنگالی اساتذہ نے انجام دیا۔ عوامی لیگ کی زیر سرپرستی چھپنے والے لٹریچر میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ پاکستان کی مجموعی آمدنی کا ساٹھ فیصد حصہ مشرقی پاکستان سے حاصل ہوتا مگر اس پر قومی آمدنی کا بیس فیصد خرچ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مغربی پاکستان قومی آمدنی کا چالیس فیصد کماتا ہے اور کل آمدنی کا پچھتر فیصد کھا جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں قریبا ً15 فیصد ہندو تھے۔ بنگالیوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی گئی کہ مغربی پاکستان تمہارا بدترین معاشی استحصال کر رہا ہے اور تمہاری پٹ سن سے حاصل ہونے والی آمدنی مغربی پاکستان میں استعمال ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی باور کروادیا گیا کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بیورو کریسی اور حکمران طبقہ تمہیں اقتدار میں تمہارا جائز مقام دینے کیلئے تیار نہیں۔ صدیوں سے غربت اور جہالت زدہ اکثریتی طبقہ اس پراپیگنڈہ کا اثر قبول کر گیا بلکہ یہی نہیں تعلیم یافتہ اور آسودہ حال لوگوں کو بھی اس پراپیگنڈہ نے جکڑ لیا۔ یہ تمام کام ہندوستان کی مکمل آشیر باد اور اس کے ایجنٹوں کے ذریعے ہو رہا تھا لیکن بد قسمتی سے اس کا توڑ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی تھی۔ چنانچہ مختلف پالیسیاں چلنے اور بظاہر سیاسی تحریکوں میں شرکت اور وہاں کے عوام میں اپنا مقام بنانے کے بعد مجیب الرحمن نے اپنے مشہورِ زمانہ چھ نکات کا اعلان کر دیا جن پر عمل در حقیقت ملک توڑنے یا دو علیحدہ مملکتوں کی ایک کنفیڈریشن کے مترادف ہوتا۔ مجیب کو اس حوالے سے بھارت کی در پردہ مکمل مدد حاصل تھی۔ قیام بنگلہ دیش کے کچھ عرصہ بعد مجیب الرحمٰن نے خود اعتراف کیا کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کیلئے کام کر رہا تھا بلکہ اس کی صاجزادی جو 45 سال پہلے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے سے بچانے والی تحاریک میں حصہ لینے والے عمر رسید بزرگ مجاہدوں کو پھانسیوں پر چڑھا رہی ہے نے ایک انٹرویو میں کہا کہ 1968 میں غالباً لندن میں اس کی اور اس کے والد کی انڈین انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کے عہدیداروں سے ملاقات ہوئی تھی اور بنگلہ دیش کی تحریک کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔ یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ 1968ء میں بنائے جانے والے RAW کے قیام کا مقصد صرف بنگلہ دیش تحریک کی مدد کرنا اور تیز کرنا تھا۔
بھارتی پراپیگنڈے، ’’را‘‘ کی کوششوں اور مجیب کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں انتخابات سے پہلے ہی ایک تشویشناک صورتحال پیدا ہو چکی تھی لوگ بہت بڑی تعداد میں عوامی لیگ کے ساتھ بھی تھے اور ایک طبقہ ان سے خوفزدہ بھی تھا۔ مارشل لاء کی گرفت بھی اس طرح مضبوط نہ تھی جیسی ہونی چاہئے تھی۔ اس لئے صورتحال کو درست کرنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات بھی نہ کئے جا سکے۔ نظم و نسق کی حالت خراب ہوتی چلی گئی۔ تعلیمی ادارے عوامی لیگ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئے۔ عوامی لیگ کے سیاسی حریف ایک طرح سے پہلے ہی شکست تسلیم کر چکے تھے۔ چنانچہ جب دسمبر1970ء میں انتخابات ہوئے تو عوامی لیگ 162 میں سے 160 سیٹوں پر کامیاب ہو گئی اور اس کے بعد مجیب الرحمٰن کا اپنے چھ نکات پر اصرار بہت بڑھ گیا اور گفتگو کیلئے ہونے والی نشتیں بغیر کسی کامیابی کے ختم ہوئیں۔
مجیب الرحمن سے بھی مقامی انتظامیہ اور صدر یحییٰ کی کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن مجموعی طور پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ چنانچہ مارچ 1971 ء میں وہاں فوجی ایکشن کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کے کئی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مقامی آبادی کے دلوں میں فوج اور مغربی پاکستان کیلئے نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بہت سے لوگ نقل مکانی کر کے انڈیا چلے گئے۔ انڈیا ان کی تعداد ایک کروڑ بتاتا ہے۔ بعدازاں جب مفروروں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوا تو اس کی آڑ میں بھارت نے تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلے بھی عام آبادی کے ساتھ مشرقی پاکستان داخل کر دئیے۔ اس کے علاوہ ہجرت کرکے جانے والے لوگوں کو بھی گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی اور وہ بھی واپس آ کر اپنی فوج سے برسرِ پیکار ہو گئے۔ افواج پاکستان کو ایک چو مکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ ایک طرف وہ وسائل اور شدید افرادی کمی کا شکار تھے دوسری جانب مقامی آبادی بھی ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑی تھی اور یہ خانہ جنگی ہرگز رتے دن کے ساتھ تشویشناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی تھی۔ عام طور پر فوجیوں کی تعداد نوے ہزار بتائی جاتی ہے لیکن حقیقتاً جنگی فوج کی تعداد صرف 34000 تھی۔ اس خانہ جنگی اور بعدازاں مکمل جنگ کے دوران یہ خبریں دنیا بھر میں مشہور ہوئیں کہ قریباً 3لاکھ انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور پاکستان کو خوب بدنام کیا گیا۔ چند سال پہلے ایک بھارتی لیڈر سبھاش چندر بوس کی پوتی شرمیلا بوس کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس میں اس نے اپنی تحقیق کی بناء پر یہ بتایا ہے کہ مارے جانیوالے افراد کی تعداد50000 سے زیادہ نہیں تھی اور یاد ر ہے کہ بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے درمیان بھی شدید تصادم ہوتے رہے غیر ملکی اور بھارتی پراپیگنڈے میں بنگالیوں کے مارے جانے کے بارے میں شدید دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے لیکن جو مظالم کے پہاڑ پاکستان کا ساتھ دینے والے بنگالیوں، غیر بنگالیوں پر ٹوٹے اس کے ذکر سے یہ مضامین خالی ہوتے ہیں۔مارچ 1971 ء کا ملٹری آپریشن شروع ہو گیا۔ ان تمام مراحل میں مجیب کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ آپریشن دوران ہونے والی نقل مکانی اور مہاجرین کی آمد کو اندرا گاندھی نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا۔ اندراگاندھی نے ایک طرف اپنے گوریلے مشرقی پاکستان میں داخل کئے اور دوسری جانب بڑی طاقتوں بالخصوص روس، امریکہ اور ہمسایہ ممالک کے دورے کر کے پاکستان کے خلاف بین الاقوامی فضا تیار کی اور بعدازاں مشرقی پاکستان پر مکمل حملہ کر دیا۔ تعداد میں انتہائی کم تھکی ہوئی اور وسائل کی شدید ترین کمی کا شکار افواج پاکستان نے اندرونی و بیرونی دشمنوں کا بھر پور مقابلہ کیا لیکن بالآخر 16 دسمبر 1971ء دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔
یہ دن پاکستان کی تاریخ کا ایک منحوس دن ہے۔ 45 سال گزرنے کے باوجود بھی اس کا دکھ کم نہیں ہوا اور ہم نے اس سے جو سبق سیکھنا چاہیے تھا نہیں سیکھا جبکہ آج بھی اس ملک میں بھارت سے دوستی کے گن گانے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس سانحے میں ہماری اپنی بہت سی کمزوریاں، غلطیاں، کوتاہیاں شامل ہیں لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا اس سانحے میں بنیادی کردار بھارت نے ادا کیا جس نے آج تک پاکستان کو ایک آزاد ملک تسلیم نہیں کیا۔ گو آج ہم دفاعی لحاظ سے خدا کے فضل و کرم سے بہت مضبوط ہیں اور بھارت جیسا دشمن اپنی دھمکیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کے باوجود ہم پر حملہ کرتے ہوئے 100 دفعہ سوچے گا لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہمارے سوچنے اور عمل کرنے کی بھی ہیں۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھنا بہت ضروری ہے لیکن کیا بنیادی مسائل کا حل اس سے زیادہ ضروری نہیں۔ آج لاکھوں کشمیری جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور اپنا حق خودارادیت مانگتے ہیں جس کا وعدہ بھارتی قیادت میں کر چکی ہے لیکن اس وعدے کو 65/70 سال گزرنے کے بعد بھی وفا نہیں کیا گیا۔