قوموں اور معاشروں کی زندگی میں کچھ ایسے بھی پل آتے ہیں جو اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں، کئی ایسے بھی لمحات گزرتے ہیں جن کو بیان کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے اور بعض ایسے سانحات بھی وقوع پذیر ہوتے ہیں جو ماتھے کا داغ بن جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا ہی سانحہ سولہ دسمبر 1971کو رونماہوا جب ہمارا ملک دولخت ہوا او رپاکستان کی تاریخ پر ہمیشہ کے لئے ایک بدنما داغ لگ گیا۔ سولہ دسمبر ناصرف پاکستان بلکہ مسلم امہ کے لئے بھی ایک سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے جب مشرقی پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی سربراہی میں 34ہزار سے زائد پاکستانی سپاہیوں نے بھارتی و بنگلہ دیشی مشترکہ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال کر پوری پاکستانی قوم کو شرمندہ اور ساری مسلم امہ کورسوا کیا تھا کیونکہ ہماری اسلامی تاریخ گوا ہ ہے جو نبی کریمﷺ سے شروع ہوئی کہ بے سروسامانی، جنگی سازوسامان اور دنیاوی اسباب کی کمی کے باوجود مسلمانوں نے صرف اپنے جذبہ ایمانی، جرات وبہادری اور سرفروشی سے قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے سے کہیں زیادہ طاقتورومضبوط اورجنگی ہتھیاروں سے لیس دشمنوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا تھا اور یہ کامیابیوں وکامرانیوں کا سلسلہ خلافت راشدہ میں بھی اپنی تابناکیوں کے ساتھ چمکتا رہا تھا ۔یہ مسلمانوں کی جرات ایمانی، بے مثال بہادری اور اللہ تبارک تعالیٰ پر کامل بھروسہ تھا کہ قیصر و کسریٰ کے محلات مسلمانوں کے پیروں تلے آکر زمین بوس ہوئے۔ ہمت، جرات، شجاعت اور بہادری کے عظیم نشان سلطان نورالدین زنگی اور بالخصوص مسلمانوں کے سرکے تاج عظیم المرتبت سلطان صلاح الدین ایوبی کو کون بھول سکتا جنہوں نے اپنے شجاعت و سرفروشی کی داستانیں رقم کی تھیں اور جن کی عظیم فتوحات سے امریکہ و یورپ آج بھی خوفزدہ ہیں جس کا واضح اعتراف یہ ہے کہ امریکی صدر بش نے عراق پر قبضہ کرنے کے بعد بے ساختہ کہا تھا کہ آج ہم نے صلیبی جنگوں کا بدلہ لے لیا ہے۔ مسلمانوں کے زوال کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب ہم نے اپنی اصل منزل سے ہٹ کر دنیاوی خدائوں کے سامنے سرجھکانا شروع کردیا جو اب تک جاری ہے۔ خیر بات ہورہی تھی سولہ دسمبر کی۔
سولہ دسمبر 1971کا دن میرے سامنے روز روشن کے طرح عیاں ہیں اور میں اس سیاہ ترین دن کو کبھی بھی بھلا نہیں سکوں گا کیونکہ 1971کی جنگ میں، میں اپنے علاقے الحمراء سوسائٹی، شرف آباد، امیر خسرو روڈ کراچی میں چیف سول وارڈن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا اور سولہ دسمبر کے بدقسمت دن جب ہم اپنے وارڈن کیمپ آفس میں بیٹھے تھے وہیں ریڈیو پر یہ اندوہناک و دلخراش خبرسماعتوں سے ٹکرائی کہ پاکستانی افواج نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ اس وقت ہم سب پر سکتہ طاری ہوگیا تھا، ہم ایک دوسرے کو عجیب خالی خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے، آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی دلوں پر کچوکے لگا رہی تھی اور ہم میں سے کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے؟ آج اس سانحے کو 46سال بیت چکے ہیں مگر ہر سال جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے میرے زخم ہرے ہوجاتے ہیں اور میری آنکھوں میں وہ رنج والم کا منظر فلمی سین کی طرح گھومنے لگتا ہے۔ یہ بات کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں سازشی بھارت، دوغلے امریکہ اور مکار اسرائیل کا پورا پورا ہاتھ تھا کیونکہ بھارت نے کبھی بھی ہمیں دل سے تسلیم نہیں کیا، نہ امریکہ ہمیں بحیثیت ایک مسلم ملک کے مضبوط دیکھنا چاہتا ہے جبکہ اسرائیل تو پاکستان کو اپنا دشمن اول سمجھتا ہے۔ خیر جب تک خود کو مستحکم رکھنے کے لئے ہمارا اپنا نظام مضبوط نہ ہو اور نالائقیوں اور کوتاہیاں کا انبار نہ ہو کوئی بھی ہمیں کمزور نہیں کر سکتا اورسولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی یہی عوامل کارفرما تھے جس کی وجہ سے ہمارا ملک دو ٹکڑے ہوا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش میں قیام پاکستان سے ہی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی، مشرقی پاکستان میں محرومیوں کو ہوا دی اور مکتی باہنی جیسی تحریکوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ چونکہ ہم پاکستانی ہیں اس لئے ہم سقوط ڈھاکہ میں اپنی کوتاہیوں اور ناعاقبت اندیش پالیسیوں پر نظر ڈالنے کے بجائے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب جاننے کے بجائے بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ساتھ بنگالیوں کو موردالزام قرار دینا شروع کر دیتے ہیں مگر مغربی پاکستان میں لگنے والے نعروں کو بالکل فراموش کربیٹھتے ہیں کہ جہاں ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ کا نعرہ لگایا گیا، بنگالیوں کو حقیر سمجھا گیا اور کثیر تعداد میں ووٹ لینے کے بعد بھی حکومت کرنے کے حق سے محروم کیا گیا۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے مزاحمت بنگالیوں نے ہی شروع کی تھی۔
یہ بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ ہی تھے جنہوں نے برصغیر میں سب سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کے خلاف علم بغاوت بلند کیا مگر ان کو 23 جون 1757ء کو پلاسی کے میدان میں اپنے ہی سپہ سالار میر جعفر کی غداری کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نواب سراج الدولہ کی شکست کے بعد ہی انگریزوں کو برصغیرمیں اپنے قدم جمانے کا موقع ملا۔ سقوط ڈھاکہ پر کہا جاتا ہے کہ بنگالیوں پر بھارت اور ہندئوں کا اثر و رسوخ غالب آگیا تھا جو سقوط ڈھاکہ کی بنیاد بنا مگر اس تاریخی حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بنگلہ دیش کا شہر ڈھاکہ ہی تھا جہاں 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ بنی جو آگے چل کر برصغیر پاک وہند کی کانگریس کے بعد دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔
یہ تو صرف کلمہ طیبہ کا ہی فیضان تھا کہ مختلف زبانیں بولنے والے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ایک ہوئے اور اس وقت صرف ایک ہی نعرہ ہر مسلمان کے لبوں پر عام تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ‘‘۔ یہ بنگلہ دیش کا خطہ ہی تھا جہاں 1946ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نے 119میں سے 113 نشستیں حاصل کیں اور یہ بھی کون بھول سکتا ہے کہ 1940ء کو لاہور میں جو اجلاس ہوا تھا اور جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی اس کی صدارت ایک بنگالی مولوی فضل الحق کررہے تھے ۔ اس کے علاوہ 1965ء کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم قوم کو رہتی دنیا تک یاد رکھے گی وہ بھی ایک بنگالی ہی تھے۔اس لئے ہمیں اپنا ایک معین اصول اپنانا چاہیے کہ ہم ہمیشہ حقائق کو مسخ کرنے کے بجائے حقیقت پسندی سے اس کا سامنا کرتے ہوئے دوسروں کی غلطیاں اور خامیاں تلاش کرنے کے بجائے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالیں۔ اس صورت میں ہی ہم آئندہ کسی بھی قسم کے سانحے یا واقعہ سے بچ سکیں گے کیونکہ بنگلہ دیش جیسی کچھ محرومیاںپاکستان کے دیگر چھوٹے صوبوں میں بھی نظر آرہی ہیں ان پر بھی ارباب اختیار کو سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے جیساکہ کہا جاتا ہے سقوط ڈھاکہ میں پاکستان کے 34 ہزار سے زائد فوجیوں نے ہتھیار دشمنوں کے سامنے ڈالے تھے مگر درحقیقت ان میں اکثر فوجی جوان ڈر کر یا خوفزدہ ہوکر زیر نہیں ہوئے بلکہ وہ اپنے اس وقت کے حاکم جنرل یحییٰ خان جیسے بے کردارشرابی اور بدطنیت شخص کی بدبختی اورجنرل نیازی و جنرل پیرزادہ جیسے بے غیرت اور مفاد پرست افراد کی مکاری کی بھینٹ چڑگئے تھے کیونکہ پاکستانی فوجی تو بہت جوش وجذبے اور جرات و بہادری سے لڑ رہے تھے مگر جب سپہ سالار ہی نااہل ہوں اور لڑنے کی خواہش وصلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں تو پھر جوانوں کا حوصلہ وولولہ شکست خوردہ ہی ہونا ہے۔
1971ء میں پاکستانی فوجیوں کی قابلیت، جرات، بہادری اور جوانمردی کے تو بھارت کے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سام مانک شا (Sam Manekshaw) بھی قائل ہوئے تھے جب کمال پور کے محاذ پر کیپٹن احسان ملک اور ان کے 140 ساتھیوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود بہت جانفشانی اور مہارت سے دفاع کیا اور مکتی باہنی اور ان کے اتحادیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے تھے اسی لئے فیلڈ مارشل سام مانک شا نے بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کیپٹن احسان ملک کی جرأت و بہادری کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں سولہ دسمبر کا تقاضا یہ ہے ایسے حالات کبھی بھی پیدا نہ کئے جائیں جس سے مزید کسی اور سولہ دسمبر کا خدشہ ہو۔ اللہ ہمیشہ پاکستان کو ہر خطرے سے محفوظ ومامون رکھے۔ آمین