امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ اسرائیل دوران مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہیں بلکہ ان پر کاری ضرب لگائی گئی۔ مسلمانوں پر ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا، تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس کو دارالخلافہ منتقل کرنا ایسے ہی جیسے مسجد کو گرجا گھر بنا دیا جائے، اب مسلمان لیڈر کہاں تک اس اقدام کے خلاف آواز یا ردعمل دیتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ اس سے قبل بھی اسرائیل فلسطین کے علاقہ غزہ میں یہودی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے کسی مسلمان ملک نے کوئی عملی اقدام نہیں اُٹھایا لیکن اب مسلمان لیڈروں کے بیان سامنے آرہے جس میں سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور ساتھ ہی اس پر فوری طورپر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ العربیہ کے مطابق سعودی عرب کے شاہی دیوان سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی عالمی قراردادوں کے منافی اور ناقابل قبول اقدام ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کے اعلان اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ بیان میں کہا گیاہے کہ سعودی عرب پہلے القدس کے بارے میں غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ اقدام کے تباہ کن نتائج سے خبردار کر چکا ہے۔ شاہی دیوان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو امریکی فیصلے پر شدید تشویش ہے۔ اس اقدام سے امریکا کی فلسطینی قوم کے حقوق کے خلاف اسرائیل کی واضح طرف داری ظاہر ہوتی ہے۔ نیز القدس کے حوالے سے تاریخی حقائق اور طے شدہ اصولوں کی نفی کر کے فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ بیان کے مطابق فلسطینی قوم کو عالمی قراردادوں کے مطابق جو حقوق دیئے گئے ہیں انہیں حاصل کرنے اور عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے کی مساعی فلسطینیوں کا حق ہے۔ سعودی عرب کسی ملک کے ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جس کے نتیجے میں فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق، القدس کے اسلامی تشخص اورخطے میں دیرپا امن کی مساعی پر ضرب لگتی ہو۔ امریکی صدر کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کے دارالحکومت کے طورپر تسلیم کئے جانے سے فلسطین، اسرائیل تنازع مزید پیچیدہ ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں پورے خطے میں تشدد کی ایک نئی لہر اٹھ سکتی ہے۔ شاہی دیوان نے فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق بشمول حق خود ارادیت کے فراہم کرنے، مسئلہ فلسطین کے دائمی اور منصفانہ حل کے لیے عالمی سطح پر کوششیں تیز کرنے، عرب ممالک کی طرف سے پیش کردہ امن فارمولے پر عمل درآمد کی راہ ہموار کرنے، فلسطینی قوم کے سلب شدہ حقوق انہیں فراہم کرنے اور خطے میں امن واستحکام کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے پر زور دیا۔
فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے واشنگٹن کے سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے اعلان کو قیام امن کی کوششوں پر کاری ضرب قرار دیتے ہوئے اسے بین الاقوامی امنگوں کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ القدس عظیم اور قدیم فلسطینی ریاست کا درالحکومت ہے جس کی شناخت ایسے فیصلوں سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ ابومازن کا مزید کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا سفارتخانے کی منتقلی سے متعلق اعلان دراصل امریکا کا امن عمل کی نگرانی سے دست کشی کا اعلان ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی قیادت دوست ملکوں کے مشورے سے اس سلسلے میں فیصلے کرنے میں مصروف ہے اور آنے والے دنوں میں فلسطینیوں کی جانب سے معاملے کی پیروی کے لئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جائیں گے۔
بدھ کے روز وائٹ ہاوس میں خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کو امریکا کا درالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور وزارت خارجہ کو ہدایت کی وہ واشنگٹن کا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرے۔فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس± نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیئے جانے کے فیصلے پر شدید رد عمل ظاہر کیا۔ حماس نے باور کرایا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام نے امریکی مفادات کے خلاف ’جہنم کے دروازے‘ کھول دیئے ہیں۔
حماس کے مرکزی رہ نما اسماعیل رضوان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کے فیصلے کے بعد خطے میں امریکی مفادات اب داو¿ پر لگ چکے ہیں۔ امریکی صدر نے القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرکے تباہی کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔انہوں نے عرب اور مسلمان ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات ختم کردیں اور اپنے ہاں متعین امریکی سفارت کاروں کو نکال باہر کریں۔ دریں اثناءتنظیم آزادی فلسطین کے جنرل سیکرٹری صائب عریقات نے امریکی صدر کے اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے نے تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کے تمام امکانات ’تباہ‘ کر دیئے ہیں۔ صائب عریقات کا کہنا ہے کہ انہیں افسوس ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے تعمیری اقدامات کے بجائے تخریبی عمل کا حصہ بن گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کرامریکا خطے میں قیام امن کے کسی بھی عمل سے اب بہت دور جا چکا ہے۔
ترکی کے صدر اردگان نے اسے عالمی امن کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہیں۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ الثانی نے بیت المقدسں کو دارالحکومت منتقل کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاکہ قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر دیا ہے اب علاقہ میں مزید آگ بھڑکے گی جس سے انسانی جانوں کے نقصان کا خدشہ ہے۔
پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے امریکہ کے صدر ٹرمپ کی جانب سے تل بیب سے مقبوضہ بیت المقدس میں دارلحکومت منتقل اور امریکی سفارت خانہ کی تعمیر کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاکہ امریکہ آج تک فلسطین اور کشمیر کی اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں پر عمل درآمد تو کیانہیں اب اس نے فلسطین کے حقوق سلب کرکے اسرائیل کو کھلی چھٹی دے دی ہے اسرائیل پہلے ہی فلسطینیوں کے حقوق سلب کرکے ان پر ظلم وبربریت جاری رکھے ہوئے ہیں، اب مزید علاقہ میں آگ بھڑکے گی جس کی ذمہ داری امریکہ اور اسرائیل پر ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کے لئے سفارتی اخلاقی طورپر مدد کرتا رہے گا۔