ماہ دسمبر پاکستان کیلئے بالخصوص اور خطے کیلئے مجموعی طور پر بے شمار آزمائشی گھڑیاں لے کر آیا۔ 16دسمبر 1971کو سقوط ڈھاکہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں ہمارا مشرقی بازو کٹ کر علیحدہ ہو گیا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ اس عظیم سانحے کے مضمرات آج بھی محسوس ہو رہے ہیں کہ 47 برس بعد بھی بانی بنگلہ دیش کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد چن چن کر ان عناصر سے بدلہ لے رہی ہیں جنہوں نے 1971میں پاک فوج کا ساتھ دیا تھا ور رضا کارانہ طور پر مشرقی پاکستان کے دفاع پہ مامور ہو گئے تھے کیو نکہ وہ قائداعظم محمد علی جناح کے متحدہ پاکستان پہ یقین رکھتے تھے۔ آج ان رضا کاروں کو نام نہاد مقدموں میں الجھا کر پاکستان کا ساتھ دینے پر تختۂ دار پر لٹکا یاجا رہا ہے لیکن حکومت پاکستان نے اْف تک نہ کی۔ برادر ملک ترکی نے شیخ حسینہ واجد کو خبردار کیا کہ و ہ ان نام نہاد جھوٹے مقدموں اور ان کی آڑ میں اپنے سیاسی حریفوں کو پاکستان کا ساتھ دینے کی پاداش میں پھانسی دینے کا سلسلہ بند کریں۔ ہزاروں غیر بنگالی آج بھی بنگلہ دیش میں محصور کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا جرم یہ تھا کہ 1947میںتقسیم ہند پہ وہ مشرقی پاکستان تشریف لے گئے۔ اس خطے کی ترقی کو اپنے خون پسینے سے یقینی بنایا۔ ہنگاموں کی بغاوت کے وقت ان غیر بنگالیوں نے رضا کارانہ طور پر پاکستان کے دفاع کو ترجیح دی۔ آج نہ پاکستان انہیںقبول کرنے کو تیار ہے اور نہ بنگلہ دیش۔ وفاداری کی سزا اب ان کی تیسری نسلیں سہہ رہی ہیں۔
پاکستان کو دو لخت کر نے کی بھارتی سازش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کس طرح بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے راء کی تشکیل کی اور اس کے پہلے ڈائریکٹر رمیشور ناتھ کائو کو حکم دیا تھا کہ ان اولین فرض پاکستان سے 1965کی جنگ میں شکست کا بدلہ لینا ہے اور اس کے ٹکڑے بخیئے کرنے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ شیخ مجیب الر حمن کو بغاوت کیلئے ورغلایا گیا۔ بنگالیوں پہ مشتمل گوریلا فوج مکتی باہنی تیار کی گئی جس کی ناکامی پہ خود بھارتی فوج کے گوریلے بھیس بدل کر مشرقی پاکستان میں گھس کر تباہیاں مچانے لگے۔
شیخ مجیب کے نام پہ بغاوت کا علم بلند کردیا گیا غیر بنگالیوں اور پاک فوج کے قتل کے بعد پاک فوج نے ایکشن لیا تو اسے ظلم و استبداد کا نام دے کر آج بھی پاکستان سے معافی طلب کرنے کا تقاضہ ہوتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں محصور پاک فوج بحریہ اور فضائیہ نے بھرپور دفاع کیا جب بھارت کو بنگالیوں کی بغاوت ناکام ہوتی دکھائی دی تو بھارتی فوج کو حملے کا حکم دیا گیا لیکن اس وقت بھارتی فوج کے سپہ سالار جنرل (بعد میں فیلڈ مارشل سیئم مانکشاء نے مزید مہلت مانگی بالآخر 23نومبر 1971کو بھارتی فوجوں نے مشرقی پاکستان پہ بھرپور حملہ کر دیا۔ یہ اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی تھی کہ انہوں نے مغربی پاکستان کی جانب سے جوابی حملہ نہ کیا۔ 3دسمبر کی شب جب کاروائی کی گئی تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ 16دسمبر 1971کومشرقی پاکستان میں فوج نے ہتھیارڈال دیئے اور پاکستان نے شکست تسلیم کرلی۔ نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدی بنالئے گئے جس میں سے 34,000 کا تعلق پاک فوج سے 16,354 پیرا ملٹری، 5,296پویس، ایک ہزار بحری اور 800فضائیہ کے عملے کے علاوہ بقیہ سویلین، مغربی پاکستانی اور وہ مشرقی پاکستانی افراد تھے جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔اندرا گاندھی نے بھارت کی فتح کا جشن مناتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ’’آج ہم نے جناح کے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا‘‘۔ مغربی پاکستان نے بعد میں ترقی کی اور بنگلہ دیش سے قریبی تعلقات قائم کئے لیکن جب سے بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت قائم ہوئی ہے، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی ایماء پر پاکستان سے دشمنی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔دوسرا عظیم سانحہ اس وقت پیش آیا جب 6دسمبر1992کو بھارتیہ جتنا پارٹی کے لعل کرشن ایڈوانی کی رہنمائی میں راشٹر یہ سوائم سیوک سنگھ (آرا یس ایس)، وشواء ہندو پر شید اور دوسرے انتہا ء پسند ہندوؤں نے رام رتھ یاترا کرکے سولہویں صدی ء میں مغل شہنشاہ بابر کے جرنیل میرباقی کی تعمیر کر دہ تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا۔ عذر یہ تھا کہ میر باقی نے مسجد کے مقام پہ رام مندر کو منہدم کرکے مسجد تعمیر کی تھی۔ اس سانحے سے پوری اسلامی دنیا میں سراسیمگی پھیل گئی۔ بھارت میں ہندو مسلم فسادات چھڑ گئے جسکے نتیجے میں2000افراد جاں بحق ہوئے لیکن مسجد کو شہید کرنے والوں کے خلاف نہ بھارتی حکومت نہ عدلیہ نے کوئی کارروائی کی۔ اب انتہائی جنونی اور انتہاء پسند ہندو نریندرمودی کی حکومت ہے جو مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔
13دسمبر 2001کو بھارت نے نئی دہلی میں اپنی ہی پارلیمانی عمارت پہ جھوٹا حملہ کرا کے الزام پاکستان کے سرتھوپ دیا۔9/11کے بعد بھارت کو پوری امید تھی کہ پاکستان بھی امریکی غم وغصہ کے لپیٹ میں آجائیگا اور اس پر دنیا کا عتاب نازل ہوجائیگا۔ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مغرب کا حلیف بن گیا اور یہ خطرہ وقتی طورپر ٹل گیا۔ بھارت کو یہ بات ہرگز نہ بھائی اور اس نے13دسمبر کا ڈرامہ رچا کر پاکستان پہ حملے کی نیت سے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد پہ لاکر کھڑی کر دیں۔ پاکستان نے گھبرانے کے بجائے سرعت سے اپنی فوجیں دفاعی پوزیشن میں تعینات کردیں جس سے بھارت 11ماہ تک اپنی فوجوں کو محاذ جنگ پہ مورچہ بند ہونے کے باوجود حملہ کرنے کی ہمت نہ کرسکا اور جھلاّہٹ میں اپنی فوجیں پیچھے ہٹانے پہ مجبور ہوگیا۔ بعد میں خفت مٹانے کی غرض سے کشمیری رہنما افضل گورو کو 13 دسمبر2013کے حملے کا ذمہ دار ٹھہرا کر جھوٹے مقدمے میں پھانسی پہ چڑ ھا دیا گیا۔
16دسمبر 2014 کو چھ تحریکِ طالبان پاکستان کے حملہ آوروںنے پشاور کے آرمی پبلک سکول میںداخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ سے141افراد کو شہید کردیا جن میں132 معصوم بچے شامل تھے۔ جون2014 میں پاک فوج نے اپریشن ضرب عضب کے ذریعہ شمالی وزیرستان میں مورچہ بند دہشت گردوں کے خلاف زبردست کارروائی کی تھی جسکا بدلہ ظالموں نے معصوم بچوں کے بیہمانہ قتل سے لیا۔
اس سانحے کے نتیجے میں پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوگئی۔ پاکستانی حکومت نے سزائے موت پر سے پابندی اٹھائی اور چھ حملہ آور جو تمام غیر ملکی تھے اور ان کے ماسٹر مائنڈ کو ان کے خفیہ ٹھکانوں میں تلاش کر کے کیفرِ کردار تک پہنچا دیا۔ ہر خاص وعام نے اس حملے کی مذمت کی۔چند حکومتی عناصر اور بعض سیاست دان جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھر پور طریقے سے پاکستان کی شمولیت پہ نکتہ چینی کررہے تھے اور سوال یہ کرتے تھے کہ وہ پرائی جنگ میں ہم کیوں شامل ہوں؟ اس سانحے کے بعد حکومت کے ساتھ ہوگئے۔ حکومت نے قومی ایکشن پلان ترتیب دیا۔
ماہ دسمبر پاکستان کی تاریخ میں اتنے شدید غم لے کر آیا اور عیسوی کیلنڈر کے اس آخری ماہ میں اتنے گھاؤ لگے کہ دل چاہتا ہے کہ التجا کریں کہ دسمبر اب مت آنا! لیکن 25 دسمبر ہمارے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی پیدائش کادن ہے اور مسیحی بھائیوں کیلئے کرسمس کا موقع۔ ہمیںان سانحات سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور مسائل کا سدباب تلاش کرنا چاہیے۔ مایوسی کفر ہے!