سانحہ سقوط ڈھاکہ کے 47 سال‘ نئی بھارتی سازشیں اور سانحہ اے پی ایس پر تربت دہشتگردی کا تازیانہ
قوم آج سقوط ڈھاکہ کے 47 سال گزرنے پر دکھی دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ وطن عزیز کے دولخت ہونے کے سانحہ کی یاد تازہ کر رہی ہے۔ چار سال قبل 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کی سفاکیت نے سقوط مشرقی پاکستان کے درد کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ آج اس درد کی ٹیسیں بھی شدت کے ساتھ محسوس ہورہی ہیں۔ آج سے 47 سال قبل 16 دسمبر کے بدنصیب دن مشرقی پاکستان میں اس ملک خداداد کو توڑنے کی بھارتی سازشیں کامیاب ہوئیں اور جنرل اے اے کے نیازی نے بھارتی جنرل اروڑہ کے سامنے سرنڈر کرکے قومی تاریخ میں سیاہ ترین باب کا اضافہ کیا۔ 16 دسمبر 1971ء کا سانحۂ سقوط ڈھاکہ بلاشبہ ہماری تاریخ کے بدترین اور سیاہ ترین اوراق میں شامل ہے جو ملک کی سالمیت کے تحفظ کے حوالے سے ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کیلئے نشانِ عبرت بھی بنا رہے گااور آئندہ ایسی کسی سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کی تلقین بھی کرتا رہے گا۔ آج اس سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کے عزم کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ ہمارے مکار دشمن بھارت نے تھیلے سے بلی باہر نکالتے ہوئے آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتانا شروع کر دیاہے جس کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ روز ہی یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ پاکستان نے آزاد کشمیر پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے جو ہم نے اس سے واگزار کراناہے۔ جنرل نیازی کی جانب سے بھارتی جرنیل اروڑہ سنگھ کے آگے پستول پھینک کر اور پیٹی اتار کر سرنڈر کرنے اور ملک کی مسلح افواج کے 90 ہزار سے زائد جوانوں اور افسران کو جنگی قیدیوں کی شکل میں ازلی مکار دشمن بھارت کے حوالے کرنے کے 47سال قبل کے واقعات آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو سوائے شرمندگی‘ پشیمانی اور ندامت کے کوئی احساس اجاگر نہیں ہوتا۔ یہ وہ داغ ندامت ہے جو ہماری پیشانیوں پر انمٹ داغ بن کر قومی غیرت و حمیت کو ہمہ وقت جھنجھوڑتا رہے گا۔ آج بھارتی وزیراعظم مودی مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں حصہ لینے کا فخریہ اظہار کرتے ہیں تو اس سے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف انکے مذموم عزائم بھی کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔
بھارت نے اس سانحہ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کر کے اسے کمزور کرنے کے مقاصد حاصل کئے اور اسی سرشاری میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے نظریۂ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دور حاضرمیں ہمارے حکمرانوں میں سے کسی نے اس سانحہ سے کوئی سبق سیکھا بھی ہے یا نہیں؟ آج تو بھارت کی حکمران بی جے پی ہماری اس ارض وطن کے مزید ٹکڑے کرنے کی اعلانیہ منصوبہ بندی کرتی نظر آتی ہے اور بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ یہ بڑ بھی مار چکے ہیںکہ پاکستان ’’راہ راست‘‘ پر نہ آیا تو ہم اسے دس پندرہ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیں گے۔ بھارتی جنونی وزیراعظم نریندر مودی بھی اس سے قبل بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کو پاکستان سے الگ کرنے کیلئے اپنے سازشی ذہن کی کیفیت کا نہ صرف اظہار کر چکے ہیں بلکہ ’’را‘‘ کا نیٹ ورک قائم کرکے اسکے حاضر سروس جاسوس کلبھوشن یادیو کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کی بھیانک وارداتیں بھی کراچکے ہیں جس کا کلبھوشن نے اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کرکے مودی سرکار کی سازشوں کا بھانڈہ پھوڑا ہے چنانچہ اس صورت حال میں تو ہمیں سانحہ سقوط ڈھاکہ سے سبق سیکھتے ہوئے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی و تحفظ کیلئے زیادہ فکر مند ہونا چاہئیے۔
16 دسمبر 1971ء کے بدنصیب دن کے اس سانحہ پر اس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کو یقینا بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا جنہوں نے اپنے ہی کرائے گئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر واضح اکثریت حاصل کرنیوالی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے دانستہ گریز کیا اور شیخ مجیب الرحمان کو جیل میں ڈال کر مشرقی پاکستان کے عوام میں منافرت کی فضا پیدا کی جبکہ دوسری بڑی پارٹی پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو اس وقت دانشمندی سے کام لیتے اور عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے فوجی حکمرانوں کو اپنے اپوزیشن میں بیٹھنے کا پیغام پہنچاتے تو یقینا انکے پاس شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار منتقل کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہتا مگر اس وقت کی فوجی قیادتوں کی بے تدبیری اور کج فہم سیاسی قیادتوں کی ہٹ دھرمی نے مشرقی پاکستان کے حالات کو منافرت کی آگ میں اس نہج تک پہنچا دیا کہ شروع دن سے ہی ملک کی سالمیت کے درپے ہمارے دشمن بھارت کو پاکستان کی سالمیت پر کاری ضرب لگانے کا نادر موقع مل گیا جس نے 3 دسمبر 1971ء کو ہم پر جنگ مسلط کی اور 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ والی قیامت برپا کر دی جس کیلئے اس نے اپنی پروردہ مکتی باہنی کو افواجِ پاکستان کے مدمقابل لا کر جہاں مسلمانوں کے خون کی ارزانی کا اہتمام کیا وہیں اس ارضِ پاک کو دولخت کرنے کے حاصل ہونیوالے موقع کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اس طرح جو وطنِ عزیز اکھنڈ بھارت کے پیروکاروں کے عزائم کو پاش پاش کرتے ہوئے اسکے وجود کو کاٹ کر بانی پاکستان قائداعظم کی زیر قیادت جاری پُرعزم تحریکِ کے نتیجہ میں اس خطۂ ارضی پر ابھر کر سامنے آیا تھا اور جس کی بنیاد برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کے خون اور عفت مآب بہنوں، بیٹیوں، مائوں کی عصمتوں کی قربانیوں سے سینچی گئی تھی‘ اسکی تعبیر ہماری فوجی اور سیاسی قیادتوں کی عاقبت نااندیشی نے دھندلا دی۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کی شکل میں موجود باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھارتی عزائم کو بھانپ کر ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور کشمیر کے حصول کیلئے بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان بھی کیا تاہم دشمن کو ملک توڑنے کا موقع فراہم کرنیوالے ان کے کردار کو بھی تاریخ کے اوراق سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ یہ حالات آج ہماری حکومتی، سیاسی اور عسکری قیادتوں سے ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے اور آئندہ ایسی کوئی غلطی نہ ہونے دینے کے متقاضی ہیں۔اس کیلئے وزیراعظم عمران خان کی پرعزم قیادت سے پوری قوم کو توقعات وابستہ ہیں جو بھارت ہی نہیں‘ اسکے سرپرست امریکہ کی بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے اور پاکستان کے موقف کی بھرپور وکالت کرتے ہیں۔
آج سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ قوم آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردوں کی بربریت سے شہید ہونیوالے ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کوبھی خراج عقیدت پیش کررہی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے انکی پہلی برسی کے موقع پر وفاق کے 122 تعلیمی ادارے اے پی ایس کے شہداء کے نام سے منسوب کئے جبکہ ملک میں بدستور جاری دہشت گردی نے سانحہ اے پی ایس کو قوم کے دلوں سے کبھی محو نہیں ہونے دیا۔ اس سانحہ کے بعد گلشن پارک لاہور‘ چیئرنگ کراس لاہور‘ سخی لال شہباز قلندر کی درگاہ اور پھر بلوچستان میں سکیورٹی اہلکاروں اور پنجابی آباد کاروں کی دوبارہ شروع ہونیوالی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ پشاور کے زرعی ڈائریکٹوریٹ سمیت خیبر پی کے میں ہونیوالی دہشت گردی اور اس سال 2018ء کے عام انتخابات کی مہم میں پشاور‘ کوہاٹ اور کوئٹہ میں سیاسی قائدین کے جلسوں میں ہونیوالے خودکش حملوں اور پھرگزشتہ روز تربت بلوچستان کے علاقے بلیدہ سے ملحقہ واکئی میں دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملے میں چھ اہلکاروں کی شہادت اور ایک کیپٹن سمیت 14 اہلکاروں کے زخمی ہونے کے واقعہ اور خودکش حملوں کے متعدد واقعات میں سینکڑوں بے گناہ انسانوں کا خون بہہ چکا ہے جن میں زیادہ تر سیاسی شخصیات‘ سکیورٹی اداروں اور اہلکاروں کو ہی ٹارگٹ کیا گیاہے۔ اس خون ناحق کا بدلہ قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل خلاصی دلا کر ہی لیا جا سکتا ہے جس کیلئے ہماری عسکری اور سول قیادتیں پرعزم بھی ہیں اور اپریشن ضرب عضب کے بعد شروع کئے گئے اپریشن ردالفساد‘ کومبنگ اپریشن اور اپریشن خیبرفور کے ذریعہ ملک بھر میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے کیلئے نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کررہی ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ دہشت گردی کی جنگ میں دی گئی ان بے بہا قربانیوں اور قومی معیشت کو حاصل ہونیوالے ناقابل تلافی نقصانات کے باوجود ہمارے کردار سے مطمئن نہیں اور آج پہلے سے بھی زیادہ تلخ لہجے میں امریکی صدر ٹرمپ خود بھی اور واشنگٹن اور پینٹاگون کے دوسرے حکام بشمول وزیر خارجہ مائیک پومپیئو بھی پاکستان کو براہ راست دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان کی سپورٹ فنڈ کی گرانٹ روکنے اور اسے عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں لانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ حد تو یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے اندر کارروائی کا اسکے مکار دشمن بھارت کو بھی اختیار دے دیا ہے جو پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی کے پس پردہ محرکات کا مکمل تدارک آج ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت اور افغانستان کی شہہ پر دہشت گرد آج بھی اس ارض وطن پر اپنے متعینہ اہداف تک پہنچ کر دہشت گردی کی گھنائونی کارروائیاں کرتے نظر آتے ہیں تاہم اس کیلئے ہمیں امریکہ یا کسی اور کی ڈکٹیشن یا ڈومور کے تقاضوں کی ضرورت نہیں۔ ہم نے ملکی سلامتی کے تقاضوں کے تحت دہشت گردی کا خود ہی تدارک کرنا ہے جس کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز پرعزم اور مصروف عمل بھی ہیں۔ اگر امریکہ دہشت گردوں کے تعاقب کے نام پر بھارت کو پاکستان کی نگرانی کا کردار سونپتا ہے تو اس حوالے سے 47 سال قبل کے سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے پس پردہ بیرونی سازشیں بھی ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں سے دفاع وطن کیلئے یکسو ہونے کی متقاضی نظر آتی ہیں۔ آج خوش قسمتی سے دفاع وطن اور ملکی و قومی مفادات کے تحفظ کیلئے تمام ریاستی ادارے بشمول سول اور عسکری قیادتیں ایک پیج پر ہیں اس لئے قوم کو امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے مؤثر توڑ کی توقع ہے۔ اگر پاکستان کو دولخت کرنیوالے بھارت کو آج امریکہ کی جانب سے دہشت گردوں کے تعاقب کے نام پر پاکستان کے اندر گھسنے کی ترغیب دی جارہی ہے تو یہ درحقیقت باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی کمزور کرنے کی سازش ہے جس کی روشنی میں آج یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کا بھرپور عہد کرنا اور درپیش خطرات اور چیلنجوں سے عہدہ برأ ہونے کے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہیں۔
اگر دہشت گردی سے خلاصی کیلئے عالمی برادری بالخصوص پڑوسی ممالک اور اندرون ملک سے حکومت اور فوج کو سپورٹ ملتی تو اب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ اسی طرح اندرون ملک نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر کڑا ہاتھ ڈالا گیا ہوتا تو دہشت گردوں میں اکا دُکا کارروائیوں کی سکت بھی ختم ہو چکی ہوتی۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کا احتساب بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ اس سلسلہ میںدہشت گردوں کی اندرونی و بیرونی فنڈنگ کی بندش اور پشت پناہی کا خاتمہ ضروری ہے تو اس سے بھی زیادہ ضروری ملک میں موجود انکے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا ہے جس کیلئے افواج پاکستان نے ملک بھر میں کومبنگ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
آج قوم بیک وقت سقوط مشرقی پاکستان اور سانحہ اے پی ایس پشاور پر غمزدہ اور دل گرفتہ ہے۔ اس موقع پر سیاسی اور عسکری قیادت کو سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرتے ہوئے دشمن کو دفاع وطن کیلئے فی الواقع قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا ہے۔ دہشت گردوں کی اب تک کی بہیمانہ کارروائیوں میں شہید ہونیوالوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے کہ ملک کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے مکمل طور پر پاک کر دیا جائے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کیخلاف مصلحتوں سے بالا ہو کر اور کسی بھی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر بے رحم اپریشن منطقی انجام کو پہنچایا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ مکار دشمن بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے قومی یکجہتی کے جس عملی مظاہرے کی ضرورت ہے اس کیلئے وزیراعظم عمران خان سے قوم کو زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ ہمیں اندرونی طور پر اپنی کسی کمزوری کو اجاگر کرکے دشمن کو سقوط ڈھاکہ جیسی کوئی دوسری سازش پروان چڑھانے کا بہرصورت موقع نہیں دینا چاہیے۔ خدا اس وطن کو سلامت تا قیامت رکھے۔