اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) عسکری ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مودی سرکار کے اقدامات پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اختتام کی شروعات ہو چکی ہیں‘‘۔ اپنے ذاتی اکائونٹ سے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا ہے مقبوضہ کشمیر سے لیکر آسام اور آگے تک، اختتام کی شروعات ہیں۔ واضح رہے کہ بی جے پی حکومت کے متنازعہ شہریت بل کی وجہ سے بھارت بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور کم از کم پانچ ریاستیں نئے قانون کو لاگو کرنے سے انکار کر چکی ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے مقبوضہ کشمیر اور متنازعہ شہریت بل کے حوالے سے چلنے والے جھوٹے بھارتی اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ایسی جھوٹی چالیں ہندوتوا کے خلاف مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں ہونے والے طاقتور عوامی مظاہروں کو نہیں روک سکتیں۔ ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا یہ یہ حقیقی سرجیکل سٹرائیک ہے جسے دنیا جانتی ہے، جھوٹے فلیگ آپریشن اور سرجیکل سٹرائیک پہلے ہی جھوٹا ثابت ہو چکا ہے، سچ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔سائوتھ چائنہ مارننگ کی رپورٹ ٹائٹل رپورٹ کے مطابق آصف غفور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مودی کے مسلمانوں پر سرجیکل سٹرائیک سے بھارت نے خود اپنے خلاف جنگ چھیڑ دی ، فوجی ترجمان نے کہا ہندو توا کے خلاف کوئی طاقتورطوفان کو نہیں روک سکتا۔
نئی دہلی (نوائے وقت رپورٹ، نیوز ایجنسیاں، بی بی سی ) متنازعہ اور مسلم مخالف شہریت کے قانون کے خلاف پورے بھارت میں احتجاج جاری ہے، جھڑپوں، پولیس کی گولیوں سے مزید 4 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے، ہلاکتیں 6 ہوگئیں۔ لوگوں نے بسوں اور ٹرینوں کو آگ لگا دی، ختلف علاقوں میں نافذ ہے اور انٹرنیٹ بدستور بند ہے۔ مغربی بنگال اور آسام میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر نہ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ ریاستوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، آسام میں جھڑپوں، فائرنگ سے مزید 4 افراد ہلاک ہو گئے۔ جس کے بعد ہلاک ہونے والوں کی تعداد 6ہو گئی۔ آسام سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں میں متنازعہ قانون کے خلاف ریلیوں، مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، آسام میں انٹرنیٹ اب بھی بند جبکہ کرفیو میں نرمی کر دی گئی ہے۔ 85 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ مغربی بنگال میں بھی متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ دلی کے طلباء نے مودی کو وزیراعظم اور امیت شاہ کو وزیر داخلہ ماننے سے ہی انکار کر دیا، کہتے ہیں ان دونوں نے آئین کو توڑا ہے۔ لوگوں نے مودی کے حمایتی میڈیا کے خلاف بھی احتجاج کیا۔آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں شدید مظاہرے ہورہے ہیں جہاں سکیورٹی کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہے جو مسلسل سڑکوں پر گشت کررہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق گوہاٹی میں اتوار کو بھی ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور ا?سام زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے جبکہ سیکڑوں اہلکار بھی وہاں موجود تھے۔مقامی انتظامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ کرفیو کی وجہ سے ریاست میں تیل اور گیس کی پیدوار متاثر ہوئی ہے حالانکہ اتوار کو پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی اور چند دکانیں بھی کھل گئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ آسام میں پولیس کی فائرنگ سے 4 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ایک شہری نذر ا?تش کی گئی دکان میں سورہا تھا اور اسی دوران ہلاک ہوگیا جبکہ چھٹے شہری کی ہلاکت احتجاج کے دوران تشدد کے باعث ہوئی۔بھارت کے مغربی بنگال، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس متنازع قانون پرعمل درآمد نہیں کریں گے۔مظاہرین نے ٹائر نذر آتش کیے اور ریلوے پٹڑی اور مرکزی شاہراہوں پر دھرنا دیا اس کے علاوہ ریلوں اور بسوں کو بھی آگ لگا دی تاہم پولیس نے موقع پر پہنچ کر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں تصادم ہوا اور ریل سروس بھی معطل کردی گئی۔ وزیرداخلہ امیت شاہ نے اپنے بیان میں عوام سے پرامن رہنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شمال مشرقی ریاستوں کی مقامی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔دوسری جانب عوام خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ اس متنازعہ بل کے ذریعے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے سندھ مہاجرین کو شہریت دی جائے گی۔جھاڑ کھنڈ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ ‘ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے ثقافت، زبان، سماجی پہچان اور سیاسی حقوق محفوظ رہیں گے’۔قانون کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں شہریت کے قانون کی اجازت نہیں دیں گی۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپش بگھیل اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی کمل ناتھ نے بھی اس کے نفاذ کے حامی نہیں ہے۔مولانا محمد عامر نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمیت ملک کے موجودہ حکمرانوں کو نفسیاتی مریض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں پاگل خانے میں ہونا چاہیے۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد تائب ہوکر مسلمان ہونے والے سابق ا?ر ایس ایس کارکن نے کئی انکشافات کیے۔بابری مسجد کی شہادت میں شامل سابق ہندو جنونی بلبیر سنگھ نے بعد میں اسلام قبول کیا اور اب وہ مولانا محمد عامر بن گئے ہیں۔سابق آر ایس ایس کارکن نے انکشاف کیا کہ نریندر مودی کے اجداد نے وطن کی آزادی کے وقت انگریزی کا ساتھ دیا اور ہندوستان سے غداری کی۔انہوں نے مزید کہا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لوگوں نے ملک کی آزادی کی مخالفت کی اور ملکہ وکٹوریہ کے وفادار تھے۔بابری مسجد شہید کرنے کے بعد 100 مساجد بنانے کا سوچا تھا اب تک 93 مساجد بنا چکا ہوں جبکہ 58 زیرتعمیر ہیں۔ مساجد بنانے کیلئے دوست احباب سے مدد لیتا ہوں۔ اگر بابری مسجد دوبارہ تعمیر ہوتی ہے تو وہاں مزدوری کروں گا۔ اگر حکومت بابری مسجد پر مقدمہ چلاتی ہے اور مجھے سزا ملتی ہے تو بھگتنے کیلئے تیار ہیں۔اتوار کی شام کو مظاہرین نے دلی سے متھرا جانے والی سڑک پر کئی بسوں کو آگ لگا دی۔ بسوں میں لگی ہوئی آگ بجھانے کے لیے جب فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آئیں تو مظاہرین نے ان پر بھی حملہ کیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں دلی کے اوکھلا، جامعہ اور کالندی کنج علاقوں میں ہوئیں۔ خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق مظاہرین بشمول جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے کالندی کنج روڈ پر شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کیا۔ خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے ان اطلاعات پر گفتگو کرتے ہوئے جامعہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ تشدد یونیورسٹی کے طلبا کے مظاہرے کے دوران نہیں بلکہ مقامی لوگوں کے مظاہرے کے دوران ہوا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ تشدد کے واقعات کے بعد دلی پولیس جامعہ کے کیمپس کے اندر داخل ہوگئی ہے اور اس نے یونیورسٹی کے تمام دروازے بند کر دئیے ہیں۔ دلی کے وزیرِاعلیٰ اروِند کیجریوال نے مظاہرین سے احتجاج کے دوران پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی طرح کے تشدد کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس نے سڑک کھلوانے کے لیے طلبا پر لاٹھی چارج کیا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے۔ اس دوران پولیس نے دوسری جانب موجود مظاہرین پر پتھر بھی پھینکے۔ اس کے بعد پولیس نے وہاں پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔پولیس راہگیروں پر ڈنڈے برساتے رہیں۔