سرینگر(این این آئی)مقبوضہ کشمیر میں اتوار کو مسلسل 133ویں روزبھی بھارتی فوجی محاصرے اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے وادی کشمیر اور جموںخطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنارہا ۔ کشمیریو ںنے کئی مقامات پر بھارتی مظالم کے خلاف مظاہرے کئے۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق علاقے میں دفعہ 144کے تحت سخت پابندیاں نافذ ہیں اور انٹرنیٹ اورپری پیڈ موبائل فون سروسزمعطل ہیں جس کی وجہ سے کشمیریوں خاص طور پرطلبائ، صحافیوں، ڈاکٹروں، تاجروں اور دیگر پیشہ ور افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ مسلسل محاصرے اور پابندیوں کیوجہ سے لوگوں کو خوراک، زندگی بچانے والی ادویات اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامناہے۔بھارتی فورسزآج بھی گھروں میں گھس کر نوجوانوں کوگرفتارکرکے انہیںنامعلوم مقامات پر منتقل کررہی ہیں۔ گرفتاری کے بعد نوجوانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے اور رہا کرنے کے لیے ان کے اہلخانہ سے تاوان طلب کیا جارہا ہے۔دریں اثنا تازہ برف باری اور بارشوں کے باعث مقبوضہ وادی کو بیرونی دنیا سے ملانے والی سرینگر جموں شاہراہ بندہوگئی ہے جس سے وادی کشمیر کاباقی دنیا سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیاہے۔
سرینگر(آئی این پی ) جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکزی خطوں کی تشکیل کے بعد بھارت کے نئے نقشے جاری کرنے کے تنازعہ نے پھر سر اٹھا لیا ہے۔ 4 نومبر کو جاری کیے گئے نئے نقشے میں نہ صرف پاکستان مقبوضہ کشمیر کو جموں و کشمیر یو ٹی میں اور لداخ یو ٹی میں گلگت بلتستان کو شامل کیا گیا بلکہ اس میں ہندوستان نے نیپال کے ساتھ متنازعہ کالپانی اور لیپولیخ کو بھی اپنا علاقہ ظاہر کیا۔ اس نقشے کا نیپال کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ ان کا مقصد سابقہ جموں و کشمیر سے بنائے گئے دونوں UTs کی نئی حدود کو ظاہر کرنا تھا ، لیکن نیپال کی پارلیمنٹ کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی نے اب حکومت سے ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کرنے کو کہا ہے جس میں کلاپانی اورلیپولیخ نیپالی علاقے کے اندرشامل دکھایاگیا ہے۔