16 دسمبر 1971 ء کو تحریک پاکستان کے ہراول صوبے نے الگ وطن کا روپ اختیارکر لیا۔ یہ وہی صوبہ ہے جس نے 1906ء میں آل آنڈیا مسلم لیگ کو جنم دیا تھا۔ 1937ء کے انتخابات میں یہ واحد صوبہ تھا، جہاں مسلم لیگ نے فتح حاصل کر کے کانگریس کو حکومت نہ بنانے دی تھی۔ 1940ء کی قرارداد لاہور میں یا 1946ء کے فیصلہ کن انتخابات، بنگالی مسلمان، کانگریس کو پے در پے شکست دینے میں پیش پیش رہے۔ حسین شہید سہروردی کا شمار ایسے چند ایک بنگالی راہنماؤں میں ہوتا ہے، جنھیں بیک وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں مقبولیت حاصل تھی۔ یہ سہروردی ہی تھے جنہوں نے 1950ء میں پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کی پہلی باقاعدہ حزب اختلاف کی جماعت جناح مسلم لیگ بنائی۔ یہ وہی سیاسی جماعت ہے جس نے 1951ء میں پنجاب کے صوبائی انتخابات میں زبردست دھاندلی کے باوجود 32 سیٹیں جیتیں۔ سہروردی جانتے تھے کہ کراچی کے غیر جمہوری طرزِ عمل کے خلاف پنجاب و بنگال کو ویسی ہی جدوجہد کرنی ہے جیسی 1947ء سے قبل آخری دس سالوں میں کانگریس کے خلاف کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سہروردی تنگ نظر قوم پرست نہ تھے۔ دسمبر 1954ء کو وطن واپسی پر سہروردی نے گورنر جنرل غلام محمد کے ساتھ اس شرط پر مفاہمت کی کہ وہ نہ صرف نئی آئین ساز اسمبلی کی تشکیل میں مدد دینگے بلکہ اسمبلی اگر آئین بنا لیتی ہے تو پاکستان کو جمہوری ڈگر پر بھی چلنے دینگے۔ اسکے بعد سہروردی نے 1956ء کے آئین کیلئے سیاست دانوںکو پانچ نکات پراکٹھا کر لیا۔ اس موقع پر ایوب اور سکندر مرزا نے 5 اگست 1955ء میں غلام محمد ہی کو فارغ کر دیا۔ بالآخر 1956ء کو سہروردی کو وزیراعظم بنایا گیا۔ سہروردی گیارہ ماہ تک وزیراعظم رہے۔ سہروردی نے اپنی خودنوشت میں نیپ کے قیام اور ایوبی مارشل لا سے قبل اسکی سیاسی قلابازیوں کو بلیک میلنگ کا عنوان دے کر الگ سے رقم کیا ہے۔ اکتوبر 1957ء کو سہروردی کی وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان میں مشترکہ جمہوری جدوجہد بند گلی کی طرف بڑھنے لگی۔ مجیب الرحمن کی سیاست اس بند گلی کی پیداوار تھی۔ جسے ایوب خان کے فوجی اقتدار میں پنپنے کا خاصا موقع میسر آیا۔ بنگلہ دیش کی جہاں آراء امام نے ایک کتاب ’’اکہتر کے وہ دن‘‘ تحریر کی جو 16 دن کی ڈائری کی شکل میں ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ احمد سلیم نے کیا تھا۔ ڈائری میں بھارت میں تربیت لینے والوں کا ذکر جابجا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خود جہاں آراء کے شوہر انجینئر شریف عالم امام کا ذکر ہے جس کا خالد شریف سے رابطہ رہا جو اگر تلا میں مکتی باہنی کے محفوظ ٹھکانے سیکٹر ٹو کا انچارج تھا۔ شریف ہی نے خالد شریف کو مشرقی پاکستان میں موجود سینکڑوں پلوں وغیرہ کی فہرست خفیہ طریقے سے فراہم کی تاکہ انہیں اڑا کر فوج کی حرکت کو محدود کر دیا جائے۔ 20 جولائی کے اپنے روزنامچہ میں مصنفہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ مغربی پاکستان کے عوام کو اس قتل عام کا علم ہی نہیں تھا۔ تاہم وہ یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ یہی تو مجیب الرحمن اور سہروردی وبھاشانی کی سیاستوں کا فرق ہے۔ 1994ء میں جنرل (ر) بختیار رانا سے انٹرویو کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جنرل یحییٰ خان نے جو الیکشن کروائے تھے۔ اگر میں انکی جگہ ہوتا تو اقتدار اکثریتی پارٹی یعنی شیخ مجیب الرحمن کو سونپتا۔ جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے جو فیصلہ کیا، وہ درست نہیں تھا۔ اس سے ملک دولخت ہو گیا۔ اگر اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کر دیا جاتا تو ملک ایک رہتا۔ بنگلہ دیش نہ بنتا۔ اس سے پہلے بھی بنگالی برسراقتدار رہے، وہ کبھی ملک تقسیم نہ کرتے۔ یہ میرا ذاتی نظریہ ہے‘‘ جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک مرتبہ مجھے کہا کہ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کی بنیاد پر پاکستان دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ’’دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں پھینک دیا گیا ہے‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اندرا گاندھی کا یہ کہنادرست نہیں تھا۔ دو قومی نظریہ ختم نہیں ہوا۔ دو قومی نظریہ تو تب ختم ہوتااگر بنگالی کہتے کہ ہم ہندوستان میں واپس جا کر اس کا حصہ بنتے ہیں۔ ختم اگر ہوا تو مسلم قومیت کا تصور ختم ہوا۔ دو قومیں تو پھر بھی رہیں لیکن اشتراک ایمان کی بنیاد پر جو ہم ایک قوم بنے تھے، اس کو دھچکا اس طرح پہنچا کہ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لیے ہوا کہ ہم نے قائداعظم کا راستہ چھوڑ دیا۔ ہم نے مسلم قومیت کے تصور کو خیرباد کہا۔