غرناطہ و بغداد کے بعد سقوط ڈھاکہ بھی تاریخ کے سینے پر مندمل نہ ہونے والا زخم رہے گا ، وہی بنگال جہاں تحریک آزادی پھلی ، پھولی ، انگریز سرکار کیخلاف جدوجہد میں جہاں علماء پھانسیوں پر جھولے ، توپوں سے باندھ کر اڑادئیے گئے۔ بنگال کے ہی مولوی اے کے فضل حق (جو شیر بنگال بھی کہلائے) نے قرارداد پاکستان پیش کی۔ بنگال کے باسیوں نے نہ صرف تحریک آزادی میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیابلکہ بعدازاں پاکستان کی تعمیر و ترقی اور استحکام کے لیے بھی اسی جذبہ جنوں سے کام کرتے رہے اور ہمت نہ ہاری۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی قیادت میں اسی جذبہ سے جُت گئے جس کے تحت انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس وقت قائدین میں لسانی تعصب تھا نہ نسلی امتیازات تھے ’’بعدالمشرقین‘‘ بھی مغربی و مشرقی پاکستان کے عوام کے دل ملانے میں رکاوٹ تھا نہ کہیں پٹ سن کی بوتھی ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کا دور دور تک خدشہ تھا نہ 6 نکات کا کہیں شور و غا تھا۔ قائد اعظم کے بعد ڈھاکہ (بنگال) سے تعلق رکھنے والے تحریک آزادی کے رہنما خواجہ ناظم الدین 1948ء میں گورنر جنرل بنے اور 1951ء تک رہے، لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد دوسرے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا اور 1951ء سے 1953 ء تک فائز رہے۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے تحریک آزادی ہند کے رہنما محمد علی بوگرہ نے پاکستان کے تیسرے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور 1953 ء سے 1955ء تک وزیر اعظم رہے۔
پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم چودھری محمد علی کی -12 اگست 1955ء سے 12 ستمبر 1956ء تک کی 13 ماہ کی وزارت عظمیٰ کے بعد) پانچویں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی بھی بنگال سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ تاہم مذکورہ بالا بنگالی رہنمائوں و قائدین تحریک آزادی کی موجودگی میں ملکی سیاست میںتعصب و امتیاز نہیں تھا وہ حتی الوسع ملک میں سیاسی استحکام کے لئے کوشاں رہے۔ لیکن سیاسی معاملات میں جوں جوں ان کی گرفت کمزور ہونے لگی توں توں پاکستان مخالف سرگرم ہونے لگے۔ ان قائدین تک تو بنگالی عصبیت کی چنگاری دبی رہی بعدازاں آہستہ آہستہ سلگنے لگی۔ طلبہ سیاست سے شہرت پانے کے بعد شیخ مجیب الرحمن بنگال کی عملی سیاست میں بھی نمایاں ہو چکے تھے۔ قبل ازیں انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران بھی کردار ادا کیا تھا حسین شہید سہروردی کی صحبت میں رہ کر بھی سیاسی منازل طے کرتے رہے۔ تاہم بنگال میں صوبائی و لسانی عصبیت کی چنگاری پہلی بار اس وقت بھڑکی جب قومی زبان اردو کا اعلان ہوا تو شیخ مجیب نے اردو مخالف اور بنگالی زبان کی حمایت میں تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ 23 جون 1949ء کو حسین شہید سہروردی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی نے عوامی مسلم لیگ قائم کی تو شیخ مجیب بھی شامل ہو گئے اور جائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1950 ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ڈھاکہ پہنچنے پر عوامی مسلم لیگ کے احتجاج کے دوران شیخ مجیب پھر گرفتار ہوئے ، وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے قومی زبان اردو کا اعلان کیا تو شیخ مجیب نے جیل میںبیٹھ کر بنگالی زبان تحریک کی قیادت کی۔ شیخ مجیب 1953ء میں عوامی لیگ کے سیکرٹری جنرل بن گئے اور پہلی بار 1954 ء میں مشرقی بنگال قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور اے کے فضل الحق کی حکومت میں وزیر زراعت بنے۔ پھر 1955ء میں پاکستان کی دوسری آئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1958ء تک رہے۔ نسلی ، لسانی اور بنگالی تعصب پر مبنی شیخ مجیب کا رویہ ایک بار پھر سامنے آیا جب ون یونٹ کے قیام کے بعد ’’ایسٹ بنگال‘‘ کو ’’ایسٹ پاکستان‘‘ بنایا گیا۔ 1956ء میں شیخ مجیب دوبارہ وزیر بنے اور صنعت و تجات ، لیبر ، انسداد رشوت ستانی اور دیہی امداد کے قلمبندان سنبھالے تاہم 1957ء میں مستعفی ہو گئے اور تمام تر توجہ عوامی لیگ کو منظم کرنے پرمرکوز کر دی۔ 1958ء میں صدر ایوب کے مارشل لاء کی مزاحمت کے نتیجہ میں شیخ مجیب کو جیل بھیج دیا گیا۔ 1961ء میں رہاہوئے اور 1962 ء میں دوبارہ گرفتار ہوئے۔ 1963ء میں حسین شہید سہروردی کی وفات کے بعد عوامی لیگ کے سربراہ بن گئے‘ شیخ مجیب نے ’’عوامی مسلم لیگ‘‘ سے ’’مسلم‘‘ کو ختم کر کے عوامی لیگ بنا دیا ۔ شیخ مجیب نے 1964ء کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تاہم انتخابات سے دو ہفتے پہلے ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔’’اگرتلّہ سازش‘‘ میں 34 بنگالی فوجی افسروں اور شیخ مجیب کو گرفتار کیا گیا لیکن اپوزیشن جماعتوں کے دبائو پرایوب خان شیخ مجیب کو رہا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 7 دسمبر 1970 ء کے انتخابات عوامی لیگ نے شیخ مجیب کی زیر قیادت اکثریت حاصل کر لی۔ دوسری بڑی پارٹی ذوالفقار بھٹو کی پیپلز پارٹی تھی پھر اقتدار کیلیے رسہ کشی شروع ہوئی۔بھٹو نے مجیب کو وزیراعظم خود صدر بننے کابھی ڈول ڈالا، ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں ، ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کی ’’پیشکش‘‘ بھی تاریخ میں’ ’محفوظ‘‘ ہو گئی ، انتقال اقتدار میں تاخیر نے بھی جلتی پر تیل ڈالا، بنگالی تعصب بھڑکا اٹھا، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا، شیخ مجیب نے سول نافرمانی کی تحریک چلا دی۔ شیخ مجیب گرفتار ہوا، مشرقی پاکستان میںحالات روزبروز بد سے بدتر ہونے لگے ، جنرل یحییٰ خان صدارت سے مستعفی ہوئے تو بھٹو صدر پاکستان بن گئے انہوں نے عالمی دبائو پر شیخ مجیب کو رہا کر دیا۔ بعدازاںشیخ مجیب سے راولپنڈی میںبھٹو نے ملاقات کی اور مشرقی و مغربی پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے کئی تجاویز پیش کیں تاہم شیخ مجیب نے ڈھاکہ جاکر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیے بغیر کوئی بھی قدم نہ اٹھانے کاعندیہ دیا۔ تاہم شیخ مجیب برطانیہ پرواز کر گئے ، وہاں سے رائل ائیر فورس کے طیارے پر دہلی اترے جہاں بھارتی صدر اور وزیر اعظم اندرا گاندھی نے استقبال کیا، بھارتی آرمی چیف بھی ہمراہ تھے جہاںشیخ مجیب اور اندراگاندھی نے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ وہیں سے شیخ مجیب کے رائل ائیر فورس کے طیارے نے اڑان بھری اور ڈھاکہ میںجااترا۔ یوںمکتی باہنی اور اندراگاندھی سمیت کئی عالمی طاقتوں کاکردار ’’اپنوں‘‘کی خود غرضی اور بیگانوں کی سازشیں بے نقاب ہوئیں۔ ڈھاکہ ڈوب گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، بنگالیوں کے حقوق کی شیخ مجیب کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی اور پھر اس کا بنگلہ ہی اس کامقتل بن گیا۔