سانحہ سقوط ڈھاکہ 16دسمبر 1971ء

Dec 16, 2020

حرا عزیز 

تاریخ عالم کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ نظریے کی بنیاد پر جغرافیہ حاصل کیا گیاورنہ ہمیشہ جغرافیہ ہی نظریوں اور قوموں کو جنم دیتا ہے ۔ اس حوالے سے وطن عزیز دنیا کے نقشے پر بے مثال ہے ۔ یہ عطائے رب کریم ہے کہ سچی دیانت و امانت کی پیکر قیادت کے بلند کردار اس فعل وعمل کا حصہ ہیں ۔اگر تاریخ پاکستان میں حضرت قائداعظمؒ کی قیادت نہ ہوتی تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا مگر جب ہم اس لیڈر سے محروم ہوئے تر مرکزیت ختم ہونا شروع ہوئی۔ ہم نفرت و انتشار کا شکار ہوئے ۔محبت و اخوت کی جگہ نفاق و بداعتمادی نے لی۔ ایک متحداور انقلاب آفریں قوم خلفشار کا شکار ہوئی ۔حضرت قائداعظم کی رحلت کے بعد حالات دن بدن بگاڑ کی جانب بڑھتے گئے اور 16دسمبر1971ہماری تاریخ کا ایک المناک دن ہے ۔اس روز کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آنیوالا اسلامی جمہوریہ پاکستان دو لخت کر دیا گیا ۔  ابن خلدون کی تحریر کا ایک اقتباس جو کہ ہماری عکاسی کرتا ہے کچھ یوں ہے " جن معاشروں میں علم و حکمت سے شناسائی کا فقدان ہو وہاں غلطیوں پر احساس زیاں ناپید ہو جاتا ہے ۔جن معاشروں میں احسا س زیاں ناپید ہو جائے وہاں دانائی کا گزر نہیں ہو سکتا اور جہاں دانائی کا کوئی وجود نہ ہو وہاں زندگی بے معنی ہو جاتی ہے" تحریک پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ سیاسی طور پر جتنے بالغ نظر ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار سیاسی کارکن بنگال میں ملیں گے موجودہ پاکستان  اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ بنگالی ہم سے زیادہ حریت پسند اور بیدار قوم ہیں۔ ہم شاید بھول گئے کہ پاکستان کی بنیادی جماعت مسلم لیگ 1906میں ڈھاکہ کے بنگالیوں کی جرأت رندانہ کی بدولت معرض وجود میں آئی۔قرار دپاکستان بھی شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی۔اگر ہم حقائق پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مغربی پاکستان پر مسلط ناعاقبت اندیش افراد کی خود غرضی اور اقتدار پرستی کے باعث عالم اسلام کی تاریخ میں اتنی بڑی ہزیمت حصے میں آئی۔مشرقی پاکستان کی عوام کے ساتھ جو سیاسی زیادتیاں ہوئیں وہ تلخ حقیقت ہیں۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے دستاویز کیمطابق 1955-60کے پانچ سالہ منصوبے میں 55فیصد آبادی رکھنے والے مشرقی پاکستان پر متحدہ پاکستان کے بجٹ کا 31فیصد خرچ کیا گیا ۔ اس دور میں مغربی حصے میں کپاس اور مشرقی پاکستان میں پٹ سن اہم نقد آور فصلیں تھیں جن کا زیادہ تر حصہ برآمد کر دیا جاتا تھا ۔ایک طرف اردو اور بنگالی زبان کے تنازعے کو طول دیا گیا اور دوسری طرف مادر ملت نے شمع حریت روشن کی تو مشرقی پاکستان کی ساری قیادت نے آپ کا ساتھ دیا مگر ایوب شاہی الیکشن نے جعلی نتائج جاری کرکے محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا دیا جوکہ مشرقی پاکستان جمہوری قوتوں اور عوام کیلئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ 1965میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوئی ۔ اس موقع پر مشرقی حصے کی حفاظت کیلئے کوئی قابل ذکر انتظامات موجود نہیں تھے جسے محرومی کے ساتھ عدم تحفظ کا احساس بھی پیدا ہوا ۔ پھر شیخ مجیب الرحمن کو اگرتلہ سازش کے تحت گرفتار کیا مگر عدلیہ سے فیصلہ نہ لیا گیا جس سے شیخ مجیب الرحمن بنگالی قوم کا واحد لیڈر بن کر ابھرا۔انہی رویوں کیخلاف شیخ مجیب الرحمن نے مشہور زمانہ چھ نکات پیش کئے ۔ایک طرف پونے چھ نکات بھٹو مان گئے مگر دوسری طرف حصول اقتدار کیلئے بے تاب و بے قرار تھے۔ وہ کس طرح برداشت کرتے کہ مجیب کو اقتدار ملے اور جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہوجائے۔ مغربی پاکستان سے خان عبدالقیوم خان ، ممتاز دولتانہ اور دیگر زعما نے مشرقی قیادت سے مصالحت کا سلسلہ شروع کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ قارئین کرام!1947سے 1971کے درمیان چوبیس سال کا دورانیہ کسی ملک کو توڑنے کیلئے ناکافی ہے لیکن دلوں کو توڑنے کیلئے بہت زیادہ ہے۔کیا ہم اس حقیقت سے آشنا نہیں کی پاکستان پہلے دلوں میں بسا پھر جغرافیہ میں ڈھلا اور ہم اس سچ کو بھی جھٹلا نہیں سکتے کہ پہلے پاکستان دلوں میں توڑا گیا بعد میں اس منصوبے پر عمل کیا گیا ۔سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کا یہ بیان " آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لیکر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا" ان کے یہ الفاظ مسلمان اور پاکستان سے نفرت کی عکاسی کرتے ہیں ۔کسی بھی قوم کیلئے کوئی سانحہ ہو جانا اپنی جگہ لیکن اگر اس سانحے سے وہ قوم سبق حاصل نہیں کرتی اور اپنی کوتاہیوں ، غلطیوں کو جان کر انہیں اصلاح نہیں کرتی تو یہ اصل سانحے سے بڑا سانحہ ہوتا ہے ۔

مزیدخبریں