استعماری قوتوں کی سازشوں سے تحفظ ،پاکستان کے استحکام کیلئے اسلامی نظام کا قیام نا گزیر ہو چکا ہے
آج پھر 16دسمبر ہے تاریخ میںجس روز 49سال قبل پاکستان کو دو لخت کرنے میں ہمارا مکار و عیار ازلی دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہو گیا تھا۔اس الم ناک سانحے کی یاد دہانی کیلئے ہر سال کانفرنسیں ، اجلاس و سیمینارز کا انعقاد ہو تا ہے اور بنگلہ دیش بننے کا سارا ملبہ دشمن پر ڈال کر دوبارہ حکومتی و سیاسی و سماجی اداروں پر ایک سکوت چھا جاتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس نازک مرحلے پر بھی ہمارے سیاستدان اپنی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے میں ہمہ تن مصروف رہیں اگر ووٹ کی بنیاد پر حکومت مشرقی پاکستان کی حکومت بننے دی جاتی ’’ تم ادھرہم ادھر ‘‘ کا نعرہ لگانے کی بجائے افہام و تفہیم سے کام لیا جاتااور زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار دے دیا جاتا جوکہ نیشنل عوامی پارٹی تھی تو اس طرح مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ نہ ہوتا۔ افسوس آج ایک دفعہ پھر ہم ایسے ہی حالات سے دو چار ہیں ۔ قومیں اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے ہی سیکھتی ہیں اور ہم نے اس سے کیا سبق سیکھا۔سقو ط ڈھاکہ جیسے عظیم سانحے کے بعد بھی ہم متحد نہ ہو سکے دشمن ہمیں نفاق کی دو دھاری تلوار سے مسلسل کاٹ رہا ہے اس سے بچنے کا واحد حل قوم کے اتحاد و باہمی یگانگت میں ہی پنہاں ہے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہندوستانی شمولیت کا آغاز 1971 ء سے بہت پہلے قتل ، اور تشدد کے ساتھ ہوا۔ بنگالیوں کو یہ باور کر ایا گیا کہ مغربی پاکستانی بنگالیوں سے نفرت کرتے ہیںاور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ کہ مغربی پاکستانی دانستہ طورپر بنگالیوں کو پسماندہ اور غیرترقی یافتہ رکھنا چاہتے ،نفرت اور عداوت کی چنگاریاں جب بھڑ کنے لگیں توراء نے بنگالیوں پر مشتمل ایک گوریلا تنظیم "مکتی باہنی" تنظیم بنائی۔ جبکہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را’’ کے قیام کا اصل مقصد ہی بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کو بے دردی سے قتل کیا تین لاکھ عورتوں کی آبروریزی کی گئی اور گائوں کے گائوں جلا دئیے گئے۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا کا جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کو بین الاقوامی زرائع ابلاغ نے بلاتحقیق و تفتیش خوب اچھالا ۔1971 ء میں مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو بھارت نے نہ صرف یہ قبیح پروپیگنڈہ جاری رکھا بلکہ باقاعدہ فوج کشی کرکے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ 16 دسمبر کو صرف مغربی پاکستان ہی میں نہیں مشرقی پاکستان میں بھی بہت سے محب وطن خاندان دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔
بھارتی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرنے میں اہم کراد ادا کیا ہے ان کی کئی تحریروں اور تقریروں سے بھارت کے اس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان پر اسکے حملے کا مقصد مصیبت زدہ عوام کی امداد تھی۔ جے پرکاش نرائن نے بنگلہ دیش کے موضوع پر بندکمرے میں ہونیوالے ایک سیمینار میں انکشاف کیا کہ ’’بھارت نے مشرقی پاکستان کی آزادی کیلئے مداخلت کا فیصلہ خدائی فوجدار کے طور پر نہیں کیا تھا بلکہ اس فیصلے کا واحد محرک ہمارا قومی مفاد تھا۔ ’’درحقیقت بھارت نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی پاکستان پر قبضے کا ایک پندرہ روز منصوبہ تیار کیا تھا۔یہی وہ منصوبہ تھا جسے اب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے بروئے کارلایاجارہا ہے۔‘‘
بھارت کے قوم پرست رہنمانیتاجی بوس کی بھتیجی اورنامورمصنفہ سرمیلا بوس نے اپنی کتاب ’DeadRechoning ‘ میں 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے متعلق انکشاف کیاہے کہ نہ تو اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کے مطابق تھا اور نہ ہی یہ کہ تشدد پاکستانی فوجیوں نے کیا تھاوہ پاکستانی فوج پر الزامات کی صفائی تو پیش نہیں کرتیں لیکن یہ اصرار ضرور کرتی ہے کہ پاکستانی فوج پر نسل کشی، جنسی زیادتیوں اور تشدد کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ قطعاً درست نہیں۔ 1971ء میں بھارتی آرمی چیف مانک شاہ کے سٹاف افسر بریگیڈئیر دپندر سنگھ نے اپنی کتاب ’’سولجرنگ ود ڈگنیٹی ‘‘ میں لکھا کہ’’ ہم نے مکتی باہنی کو تیار کیا جن میں سے کچھ کو ہم پاک فوج کی وردیاں پہنا کر مشرقی پاکستان میں لوٹ مار اور آبروریزی کا ٹاسک دیکر بھیجتے جس سے وہاں کے لوگوں میں پاک فوج کیخلاف نفرت عروج پر تھی‘‘۔ پاکستان کے ٹکڑ ے کرنے کی سازش کی تکمیل میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 15اگست 2016 ء کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پہ تقریر کرتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کوپاکستان سے علیحدہ کر کے دم لیں گے اور آزاد جموں وکشمیر ،گلگت او ر بلتستان کو بھی آزاد کروا لیا جائیگا۔ یوں بھارت نے پاکستان کو توڑنے کے اپنے گھنائونے منصوبے میں پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کی۔ بھارتی مداخلت کا واضح ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری ہے جس نے خود بلوچستان میں دہشتگردی کے ارتکاب اعتراف کیا کس طرح بلوچ نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کیلئے انہیں اسلحہ سمیت رقوم بھی فراہم کی جاتی رہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان مغربی محاذ اور اندرونی سطح پر دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اسکے عوام اور افواج اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد ہم نے کیا کھویا کیا پایا ؟
Dec 16, 2020