کچھ دن ملکوں کی تاریخ میں ایسے اذیت ناک بھی ہوتے ہیں جن کی برسوں گزر جانے کے بعد بھی اذیت کم نہیں ہو تی سو لہ دسمبر 1971 ایسا ہی ایک تاریک دن جو پاکستان کے وجود کو دو حصوں میں تقسیم کر گیا ، پا کستان کے دل پہ لگا زخم ہر سال ماضی کی تلخ یادیں لے کے آتا ہی تھا کہ اسی دن ایک اور قیامت خیز سانحہ ، آج سے چھے سال قبل ہمارے پہلے سے لگے زخم کے گھائو کو اور گہرا اور درد ناک کر گیا ۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں پہ بیتی رونگٹھے کھڑے کر دینے والی ایک ایسی خون سے لکھی داستان، جب ماوٗں کی چیخوں اور آہوں سے آسمان بھی کانپ گیا تھا ، ایک ایسا دن جب بچوں کے مہکتے گلاب چہرے، مستقبل کے خواب بنتی آنکھیں، اجلے سفید کپڑے ایسے لہو رنگ ہوئے کہ آج بھی ان کی سرخی ان کی مائوں کی آنکھوں سے چھلکتی ہے ۔ علم حاصل کرنے کی چاہ میںجو سوئے مکتب گئے واپس پھر ان کے خون میں لتھڑے لاشے آئے ۔
پاکستان کے دو لخت ہو جانے کی داستان بھی اپنوں کی غداری ، ذاتی مفادات کی ایک ایسی لڑائی تھی جس کا انجام بہت بھیانک ہوا 14 اگست 1947کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اس وقت قائد اعظم نے فرمایا تھا ’’دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو پاکستان کا وجود ختم کر سکے ‘‘۔ قائد اعظم کی اس امید اور یقین کا خون ہمارے ہاں ان مفاد پرست لوگوں نے کیا جو اپنی ذاتی خواہشات کے حصول کیلئے ملکی مفادات کو بھی قربان کرنے کو تیار تھے اور جنہوں نے پاکستانیوں کے بیچ نفرت اور انتشار کو ایسی ہوا دی کہ آخر کار اس کا نتیجہ ملک کے دو ٹکڑوں کی صورت میں نکلا ۔ ملک تو دو حصوں میں بٹ گیا لیکن ہماری ایسی بدقسمتی رہی کہ اقتدار کے حواری اتنے بڑے نقصان کے بعد بھی نہ سدھر سکے سیاست کی رسہ کشی طاقت کے ایوانوں میں آج بھی پوری شدو مد سے جاری ہے جبکہ دوسری طرف ہمیں ایسے عیار دشمن کا سامنا ہے جس نے ہمیشہ موقع ملنے پر ہماری پیٹھ پہ چھرا گھونپا ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک ہندوستان پاکستان کے وجود سے انکاری ہے اور ہر جگہ اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستان کے دو حصے ہونے میں جہاں اپنوں کی بے وفائیاں شامل تھیں وہیں بھارت نے بھی ایسے حالات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری طرح سے نہ صرف پاکستان مخالف تحریک کو ہوا دی بلکہ ہر طرح سے ان عناصر کی بھرپور حمایت کی اور ان کی مدد کو پیش پیش رہے جو پاکستان کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے حامی نہ تھے بلکہ اپنے ہی ملک کا بٹوارا چاہتے تھے اور یوں بہت سے عوامل نے مل کر ہمیں یہ تاریک ترین دن دکھایا جب آخر کار علامہ اقبال کا خواب اور قائد اعظم کی کوشش سے بنا ایک ایسے نظریے پہ قائم وطن جس کو لاالہ الا کے نام پہ حاصل کیا گیا تھا دو لخت ہو گیا ہم سے مشرقی پاکستان الگ ہو گیا جو اب بنگلہ دیش کے نام سے دنیا میں جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔ پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد بھی ہندوستان اپنی شر انگیزیوں سے باز نہیں آیا اور اب جب سے مودی سرکار آئی ہے اس نے کشمیر پہ زبردستی کا کالا قانون لاگو کر کے مسلمانوں کیخلاف نفرت کا ایسا باب کھول دیا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے جس نے دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کے بادل اس قدر گہرے کر دئیے ہیں کہ جن کی تاریکی میں امید کی لو مدھم پڑتی جارہی ہے۔
دوسری طرف لہو میں ڈوبے قلم کی داستان بھی سقوط ڈھاکہ سے کم الم ناک نہیں ۔ درد میں ڈوبے دل سے لکھی اس دن کی اذیت ناک داستانیں فضا میں سوگواریت کی ایسی کیفیت لے کے آتی ہیں کہ دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں ، دھند میں لپٹی سسکتی آہوں اور سسکیوں کو روک نہیں پاتیں۔ سانحہ اے پی ایس پشاور دہشت گردی کی ایسی دردناک داستان جس نے چھے برس گزر جانے کے بعد بھی ہمارے زخموں کو تازہ رکھا ہوا ہے۔ سولہ دسمبر کی صبح علم کے حصول کیلئے گھروں سے جانیوالے ننھے طالب علم اور انکے ماں باپ کب یہ جانتے تھے کہ جب لوٹیں گے تو انکے کاندھوں پہ بستوں کی جگہ انکے لہو میں ڈوبے بستے اور کفن میں لپٹی لاشیں ان کا مقدر بن جائیں گی ۔ یہی وہ تاریک دن تھا جب تحریک طالبان پاکستان نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پہ حملہ کیا نا صرف اندھا دھند گولیوں ا ور خود کش جیکٹوںکا استعمال کر کے 132طلباء کو شہید کیا بلکہ سکول کی پرنسپل سمیت نو اساتذہ اور تین سیکیورٹی کے اہلکار بھی اس حملے میں شہید ہوئے ۔ ایسا کم ظرف اور ظالم دشمن جس کو ننھے بچوں پہ بھی رحم نہ آیا ، شہید ہونیوالے بچوں میں نو سال سے اٹھارہ سال کی عمر کے طالب علم شامل تھے ۔ یہ144 شہادتیں ہمارے دلوں میں ایسے نقش ہو کے رہ گئی ہیں کہ آج بھی انکی یادہر سال دلوں میںلگے زخم پھر سے ہرے کر دیتی ہے ۔ ہمیں سقوط ڈھاکہ کی کرب ناک کہانی اور اے پی ایس کی لہو رنگ داستان آج کے دن یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم نے اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے ۔ کیا ہم ہر سال اس سوگوار دن کو صرف ایک تکلیف دہ یاد سمجھ کے منائیں گے یا یہ بھی عہد کرینگے کہ اپنے ملک کے خلاف آئندہ کسی دشمن کو کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دینا۔ وہ مفاد پرست ٹولے جو آج بھی اس ملک کودیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اب وقت آ گیا ہے کہ سب کو اپنے حصے کے فرض نبھانے ہوں گے ۔ اس ملک میں ہر اس ناسور کا خاتمہ کرنا ہو گا جو ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتا ۔ تاریکی میں امید کی شمع روشن کرنا ہی دراصل حصول منزل کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے ۔
لہو میں ڈوبے قلم اور سقوط ڈھاکہ کی داستان۔۔۔!
Dec 16, 2020