نصف صدی میں پاکستان کے ٹوٹنے اور دولخت ہونے کی بہت سی وجوہات اور اسباب سامنے آچکے ہیں ،بہت سے حقائق بے نقاب ہوچکے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو توڑنے کی سازش کے پیچھے بہت سے چہروں پر سے پردہ اتر چکا ہے ۔ شاید رہتی دنیاتک بہت سے حقائق اور بھی سامنے آئیں گے مگر کچھ عرصہ قبل ایک نہایت تکلیف دہ حقیقت سامنے آئی ہے ۔
آئی بی کے سابق ڈائریکٹر جنرل احسان غنی نے ایک سینئر صحافی کو دیئے گئے اپنے تازہ انٹرویو میں جس حقیقت کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کوئی ایسا الیکشن نہیں جس میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ایک رول پلے نہیں کیا۔’’ 70 کے انتخابات جو سمجھے جاتے ہیں کہ بڑے شفاف تھے ان میں انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ جماعت اسلامی ملک بھر خصوصامغربی پاکستان میں کلین سویپ کررہی تھی ،ہمیں ہر طرف سے خبریں موصول ہورہی تھیں کہ جماعت اسلامی ہر جگہ بھاری اکثریت سے جیت رہی ہے ۔رپورٹس یہ بھی تھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو جو چھ نشستوں سے الیکشن لڑرہے تھے وہ صرف لاڑکانہ کی سیٹ جیت سکیں گے ، باقی ہر جگہ ہاریں گے ۔یہ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ تھی کیونکہ اس وقت آئی ایس آئی کا توان چیزوں میں کوئی رول نہیں تھا۔
بانی ٔ جماعت اسلامی اور مستقبل پرگہری نظر رکھنے والے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے لاہور کے سنت نگر گرائونڈ میں انتخابی جلسہ عام سے خطاب میں فرمایا تھا کہ ’’اگر مشرقی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی علاقائی جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوئیں تو پاکستان کو فوج سمیت کوئی طاقت بھی متحد نہیں رکھ سکے گی ‘‘یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کو اس دور کے سیاسی و علاقائی حالات پرنظر رکھنے والا آسانی سے سمجھ سکتا تھا مگر افسوس کہ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کے ادارے بھی یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے مصلحتوں کا شکار رہے ۔دشمن کی سازشوں کے بنے ہوئے جال کو توڑنے اور ملکی سلامتی کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے دیکھتے ہی دیکھتے ملک دو لخت ہوگیا۔ سب سے ذلت آمیز لمحہ ہتھیار ڈالنے کا تھا جب مشرقی اور مغربی پاکستان کے کروڑوں محب وطن عوام کی آنکھیں بہہ نکلیں ،لاکھوں لوگ دھاڑیں مار کر اس پاکستان کو ٹوٹتا دیکھ رہے تھے جس کیلئے ان کے بڑوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے ،لاکھوں مائو ں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوئی تھیں ،کروڑوں لوگوں کے لٹے پٹے قافلے پاکستان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرکے خالی ہاتھ بے سروسامانی کی حالت ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے ۔ملک کی 73سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ پاکستان کے اساسی نظریے سے انحراف کرنے والوں کوچن چن کر بار بار اقتدار پر مسلط کیا گیا۔ان نااہل اور نظریہ پاکستان سے بے وفائی کرنے والوں کی وجہ سے پاکستان اپنے مشرقی باز و سے محروم ہوگیا ۔21سال قبل ایک ٹھوس نظریے لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی دنیا کی سب سے بڑی مملکت دولخت ہوگئی ۔
تاریخ ہمیں آج بھی جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں اور سقوط ڈھاکہ پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کی بجائے ان تلخ حقائق کا جائرہ لیں جن جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہوا۔بلا شبہ بہت سے مسائل نے پاکستان بنتے ہی سر اٹھا لیا تھا ،ضرورت تھی کہ ان مسائل کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ حل کیا جاتا اور مشرقی پاکستان کے عوام کی شکایت پر کان دھرا جاتا مگر حکمرانی اور اقتدار کے نشے میں مدہوش انگریز کے غلاموں نے کبھی ان اسباب کی بیخ کنی کی طرف توجہ نہیں دی جو بڑی سرعت کے ساتھ سر اٹھا رہے تھے ۔مسلسل وعدہ خلافیوں پر مشرقی پاکستان میں وہ طوفان اٹھا کہ جس کو دبانے کیلئے نہایت عجلت میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا،جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان کے ہمارے اپنے ہم سے دور ہوگئے اور آخر وہ وقت آگیا جب ہمارا ازلی دشمن ہمارے بازو کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان کو بچانے اور بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے والوں کو آج پھانسیوں اور قید و بند کی صعوبتوں کا سامناہے۔
سقوط ڈھاکہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ صدیوں ہم اس پر روتے دھوتے اور آنسوں بہاتے رہیں اس کا دردکبھی کم نہیں ہوگا۔ آج کی نئی نسل کو شاید معلوم بھی نہیں کہ کبھی بنگلادیش بھی ہماراحصہ تھا۔ مسجدوں کا شہر ڈھاکہ ،پٹ سن کے ریشے والا سوناربنگلہ، سبزے کی وسعتوں ، دریاؤں کی کثرت،گہری جھیلوں،گھنے جنگلوں کی چھاؤں والی سرزمین کبھی پاکستان تھی۔ایک پاکستان تھا… دو کیسے گئے۔یہ سانحہ کسی ریفرنڈم سے نہیں۔ بھارت کی پانچ لاکھ فوج کے ذریعہ ہوا ۔ پاکستان کے خلاف تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی ہوئی ،اور بھارت نے عالمی سرحدوں اور قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پہلے مکتی باہنی اور پھر براہ راست فوج پاکستان میں داخل کیا۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے بزرگوں کو پاکستان سے محبت اور وفاداری اور فوج کی مدد کرنے کے الزام میں آج تک تختۂ دار پر لٹکایا جارہا ہے۔مودی نے ڈھاکہ کے دورے پر بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ بنگلا دیش بنانے اور پاکستان کو توڑنے کیلئے آنیوالے بھارتی جتھوں میں وہ بھی شامل تھے۔نیا پاکستان بنانے کے دعوے کرنیوالوں نے آج ملکی حالات کو ایسی نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ایک انجانا خوف اور خدشات سراٹھانے لگے ہیں۔ قومی وحدت اور یکجہتی مفقودہے ،بلوچستان میں بھارتی سازشیں اورتخریب کاری کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں، ہمارے ذمہ دار حلقوں کی طرف سے یہ بیان تو دیئے جاتے ہیں کی بھارت پاکستان کیخلاف ہائی برڈ وار جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ماضی میں جھانک کر مستقبل کیلئے منصوبہ سازی ہو،پاکستان کے محروم علاقوں کی محرومیوں کو ختم کیا جائے ۔احساس محرومی کا ازالہ کیا جائے ،قومی دولت اور وسائل جن پر دوفیصد اشرافیہ کا قبضہ ہے ان کی تقسیم کو انصاف کے مطابق یقینی بنایا جائے اور سب کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیا جائے ۔ہر جگہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی ہو،عوام کی آواز کو طاقت سے دبانے کی بجائے یا غدارکا ٹھپہ لگا کر نکالنے کی بجائے ان کی آوازسنی جائے ۔