ملک کی سلامتی کیلئے فکرمند ہونے کے متقاضی سقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس پشاور کے سانحات اور ہمارے رویے
سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے 49 سال گزرنے پر آج قوم باقیماندہ پاکستان کی سلامتی سنگین خطرات میں گھری دیکھ کر نمناک آنکھوں اور متفکر سوچوں کے ساتھ ملک کے دولخت ہونے کی یاد تازہ کر رہی ہے اور کفِ افسوس ملتے ہوئے ملک کی قومی سیاسی‘ حکومتی اور عسکری قیادتوں سے ملک کی سلامتی و بقاء کیلئے فکرمند ہونے اور قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا استوار کرنے کی متقاضی ہے۔ آج ہی کے دن چھ سال قبل 16 دسمبر 2014ء کو ہمارے سفاک دشمن بھارت نے پھر ہم پر اوچھا وار کیا اور اپنے بھجوائے ننگ انسانیت دہشت گردوں کے ذریعے آرمی پبلک سکول پشاور کے دوسو کے قریب بے گناہ و معصوم بچوں اور انکے اساتذہ بشمول پرنسپل کو اپنے جنونی سفلی جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان معصوموں کے خون سے رقم ہونیوالی ہماری یہ تاریخ انتہائی کربناک اور دل ہلا دینے والی ہے اور گھنائونی بے رحم سازشوں کے مقابل ہمہ وقت الرٹ رہنے کی متقاضی ہے کیونکہ آج یہ مکار دشمن بلوچستان‘ گلگت بلتستان اور دوسرے شمالی علاقہ جات سمیت ملک کے مختلف حصوں میں سقوط ڈھاکہ پر منتج ہونیوالے مشرقی پاکستان کے حالات جیسی صورتحال پیدا کرنے کی اعلانیہ سازشوں میں مصروف ہے اور اسی تناظر میں خود نریندر مودی پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ تاراج کرنے کی بڑ مارتے نظر آتے ہیں۔
آج سے 49 سال قبل 16 دسمبر کا بدنصیب و سیاہ دن 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مکتی باہنی کی گھنائونی سازشوں سے پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوا اور ہمیں مشرقی پاکستان میں جنرل اے اے کے نیازی کی زیرکمان پاک فوج کے سرنڈر ہونے اور بھارتی فوجی جرنیل اروڑہ کے آگے ہتھیار ڈالنے کی انتہائی تکلیف دہ ہزیمت بھی اٹھانی پڑی۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جو ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے حوالے سے ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں سے آئندہ ایسی کسی سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کا ہمہ وقت متقاضی رہتا ہے۔ بھارت نے اس سانحہ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرکے اسے کمزور کرنے کے مقاصد پورے کئے اور اسی سرشاری میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔
بے شک اس ہزیمت اور شکست خوردگی کے ماحول میں بھی اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے ملک کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کی کوششوں کا آغاز کرکے قوم کی مایوسیوں کا ازالہ کیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کامیاب سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کے تحت جنگی قیدی بنے اس وطن عزیز کے 95 ہزار فوجی اہلکاروں اور سویلینز کو دشمن کے تسلط سے آزاد کرایا اور اسکے زیر قبضہ پاکستان کے علاقے بھی اس سے چھڑوانے کی سرخروئی حاصل کی اور انکے بعد کی قومی قیادتوں نے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرکے عملی طور پر ملک کا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر بنایا مگر شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہمارا سفاک دشمن بھارت ہماری سلامتی کیخلاف آج پہلے سے بھی زیادہ گھنائونی سازشوں میں مصروف ہے اور بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ یہ بڑ بھی مار چکے ہیں کہ پاکستان ’’راہ راست‘‘ پر نہ آیا تو ہم اسے دس پندرہ ٹکڑوں میں تقسیم کر دینگے۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو مکتی باہنی کے متشدد رکن ہونے کے ناطے پاکستان دشمنی کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں‘ بلوچستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو پاکستان سے الگ کرنے کی اپنے ذہن میں سمائی سازشوں کا اعلانیہ اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس اظہار کا اعادہ انہوں نے گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کے موقع پر بھی ان انتخابات کو متنازعہ قرار دلانے کی کوششوں کے ذریعے کیا۔ وہ اپنی ان سازشوں کی بنیاد پر ہی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی پھیلا کر اسے انتشار کا شکار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بھارتی ’’را‘‘ کے قائم کردہ اس نیٹ ورک کے ذریعے ہی بھارتی دہشت گردوں کو افغان دھرتی پر تربیت دیکر اور انکی فنڈنگ کرکے افغان سرحد کے راستے پاکستان بھجوایا جاتا ہے جنہیں پاکستان میں بھارتی فنڈنگ پر پلنے والے سہولت کار دستیاب ہوتے ہیں جن کی معاونت سے وہ دہشت گردی کیلئے بھارتی متعین کردہ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
16دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں بھی بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کی منظم واردات کی گئی جس کی یاد آج بھی قوم کو خون کے آنسو رلاتی ہے جبکہ بھارت آج مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر پہلے سے بھی زیادہ دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتا نظر آتا ہے۔ گزشتہ سال پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اس پر شب خون مارنے کا مودی سرکار کا مقصد بھی درحقیقت پاکستان کی سلامتی پر اوچھاوار کرنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانا تھا چنانچہ مقبوضہ وادی کے بھارتی فوجوں کے ہاتھوں محصور ہوئے آج 498 روز گزر چکے ہیں اور اس کیخلاف دنیا بھر میں عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی جانب سے ہونیوالی مذمتوں اور علاقائی و عالمی امن کے حوالے سے تشویش کے اظہار پر بھی مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس نے مقبوضہ وادی میں ہی نہیں‘ کنٹرول لائن پر بھی اشتعال انگیز فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں کنٹرول لائن سے ملحقہ شہری آبادیوں کو بھی دانستہ طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ اس کیخلاف پاکستان کی جوابی کارروائی کو جواز بنا کر اس پر باقاعدہ جنگ مسلط کی جاسکے۔
ان بھارتی سازشوں سے آج پوری دنیا آگاہ ہے اور مودی سرکار کی جانب سے اپنے جنگی جنون کو عملی قالب میں ڈھالنا بھی بعیداز قیاس نہیں اس لئے آج سانحہ سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس کی کربناک یاد کو تازہ کرتے ہوئے ہمیں ملک کی سلامتی کیلئے زیادہ فکرمند ہونا ہے۔ اس کیلئے قومی سیاسی حکومتی اور عسکری قیادتوں کا دفاع وطن کیلئے مکمل یکجہت ہونا اور اس ناطے سے دشمن کو سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا ضروری ہے۔ آج بدقسمتی سے ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی جس نہج تک جاپہنچی ہے جس میں قومی ریاستی اداروں کے مابین بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے‘ وہ دشمن کو ملک کی سلامتی کیخلاف کھل کر اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے جبکہ آج ملک کی سلامتی کیلئے متفکر ہونے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر آج بھارت ہم پر سرجیکل سٹرائیکس کی اعلانیہ منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے تو اس کا ٹھوس جواب ہمیں قومی اتحاد کے بل بوتے پر دینا ہے نہ کہ ہم سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں تک لے جا کر اپنے سفاک دشمن کو قومی انتشار کی جھلک دکھائیں اور اسے ملک کی سلامتی پر اسکے منصوبے کے مطابق وار کرنے کا نادر موقع فراہم کریں۔ ہمیں آج 16 دسمبر کے دونوں قومی سانحات کو مدنظر رکھ کر اپنی سلامتی ناقابل تسخیر بنانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہے جو قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا میں ہی ممکن ہے اس لئے قومی سیاسی قیادتیں باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے باہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے عساکر پاکستان کے ہاتھ مضبوط بنائیں۔ آج سیاسی دکانداریاں چمکانے سے زیادہ ملک کا دفاع یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک ہوگا تو سیاست کے بازار میں بھی رونق لگی رہے گی۔ خدا اس وطن عزیز کا حامی و نگہبان ہو۔
آج سیاسی دکانداریاں چمکانے کی نہیں‘ ملک کا دفاع مضبوط بنانے کی ضرورت ہے
Dec 16, 2020