سقوطِ ڈھاکہ کا قیام اور مجیب الرحمن کے چھ نکات

سولہ دسمبر1971ملکی و قومی تاریخ کا ایک سیاہ ترین تاریخی المیہ کا دن ہے جب ریاست کا مشرقی بازو علیحدہ اور ایک نئے اسلامی ملک بنگلا دیش کے نام سے قیام میں آیا۔سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات و محرکات میں جہاں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے کردار جس میں وہ انیس سو پیسنٹھ کی جنگ کے کھائے زخموں میں پیج و تاب کھا رہا رہا اور عالمی سطح پر اٹھائے جانے والی ہزیمت کو کم کرنا چاہتا تھا شامل ہیں وہاں مشرقی پاکستان کی عوامی پارٹی کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کے انتہا پسندانہ سرگرمیوں اور ملک میں منافرت پھیلانے جیسے مرکزی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔د پردہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں پاکستان دشمن مخالف قوتوں کو سپورٹ کیا۔جنرل ایوب کے لمبے عرصے تک مسندِ اقتدار سے چمٹے رہنے کے بعد علیحدہ ہونے کے پر طالع آزما حکمران جنرل یحییٰ1970میں ملک میں دستور ساز اسمبلی کی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن کا اعلان کر چکے تھے۔مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان کے شہریوں میں یہ بدظنی پھیلا رکھی تھی کہ مغربی پاکستان کی ترقی کا دارومدار مشرقی پاکستان کے وسائل سے ہے ۔نسلی و لسانی خلیج کو بڑھاوا دیا، انارکی پھیلائی گئی۔ شہریوں میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ مشرقی پاکستان کے شہریوں کے حقوق سلب کئے جا ریے ہیں اور ان کا مسلسل استحصال جاری ہے۔ اسلام آباد دورے کے دوران کہا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے مجھے پٹ سن کی بو آ رہی ہے ان کا اشارہ مشرقی پاکستان کے وسائل لوٹنے کے مترادف تھا۔عوامی لیگ کے سربراہ نے پانچ فروری1966میں لاہور میں ہونے والے ایک اجلاس میں اپنے چھ نکات پیش کئے جو صرف اور صرف مشرقی پاکستان کے مفاد اور صوبائی خود مختاری میں ایک واضح ایجنڈا تھا جو بادی النظر میں یہ ثابت کر رہا تھا کہ قبل ازیں واقعی مغربی پاکستان نے ان کے ساتھ ناروا اور غیر منصفانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔وہ انہیں قانوں کی شکل میں منظور کروانے کے بھی خواہاں تھے جو کہ ایک ملکی قوانین سے انحراف ملک میں دو کرنسیوں کے نفاذ کا اپنی نوعیت کا عجیب مطالبہ، مکمل صوبائی خود مختاری کنفیڈریشن تھا۔مجیب الرحمٰن نے انہی چھ نکات کے ایجنڈے کے تحت الیکش لڑا اور جنرل یحییٰ نے اس کی اجازت دی جو سرکاری طور ریاست کو عملی طور پردو حصوں میں تقسیم کرنے کی شروعات تھیں۔وہ اپنی اسی رود داد کے مطابق آئین کی تشکیل بھی چاہتے تھے جس میں وفاق  کے اختیارات کوکو سرف خارجی و داخلیؒ امور تک محدود کرنا چاہتے تھے۔مرکز کو ملک سے ٹیکس ،محصولات کے نظام جو کسی بھی ریاست کو چلانے کے واحد ذرائع ہوتے ہیں سے بھی دور رکھنا چاہتے تھے اور مالیاتی امور میں وفاق کو صوبوں کے ذرائع آمدن کے مطابق ان کے تابع کرنے کے خواہشمند تھے۔و ہ مشرقی پاکستانی مصنوعات کو بیرون ملک برآمدات ور درآمدات میں مکمل خود مختاری چاہتے تھے حتیٰ کہ مشرقی پاکستان کو نیم فوجی دستے رکھنے، جداگانہ بیکنگ نظام اور سرمایہ کو مشرقی صوبے سے مغربی صوبے کو منقتل نہ کرنے کا مطالبہ کرنے جیسے غیر جمہوری رویوں،سیاسی عدمِ استحکام کے حامل مطالبات ان کے چھ نکاتی یاداشتوں میں شامل تھے۔1970کے الیکشن میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے162نشستوں میں سے ڈرامائی طور پر 160نشستوں پر کامیابی حاصلؒ کر لی جبکہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپل پارٹی 135نشستوں میں سے 81نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے سرِ فہرست رہی۔جب جنرل ییحیٰ نے غیر دانشمندانہ پالیسی پر ستور ساز اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کیا تومجیب الرحمٰن نے انڈیا کے ایما اور عسکری سفارتی اشیر بادپر بغاوت شروع کر دی اور ملک مخالف مظاہروں کا اعلان کر دیا جس سے انڈیا نے ملک میں سیاسی خلفشار و بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کو توڑتے ہوئے 3دسمبر1971کو جنگ کا آغاز کردیا۔انڈیا کی پہلے سے بنی سازش میں جو اس نے جدید ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ اکھٹا کر رکھاتھے دو لاکھ فوج جس میں اس کی بد نام زمانہ شر پسند اورجنگجو مکتی ماہنی  کے غنڈے بھی شامل حملہ کیا جبکہ پاکستان کے 90لاکھ سے زائد جوانوں نے ان کا مقابلہ کیا۔شیخ مجیب الرحمٰن کی بغاوت اور ملک دشمن سر گرمیوں کی وجہ سے بد قسمتی سے مضبوط دفاعی نظام کے باوجودہما ری ماہر ،تجربہ کار اور جذبہ شہادت سے سرشارفوج جو ڈھاکہ میں 26400سے زائد تھی انڈیا کی تین ہزار فوج کے مقابلہ کمزور پڑ گئی اور سقوطِ ڈھاکہ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ ہمارے سیاستدانوں کی نا عاقبت اندیشی،کوتاہ نظری سے جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ دنیا بھر کی سب سے بڑی اسلامی مملکت سے 144000مربع کلو میٹر کا رقبہ چھن جانے پر بنگلا دیش دنیا میں تیسرے مسلم اکثریتی ملک کی صورت میں نقشے پر ابھرا۔ہماری اشرافیہ اور سیاستدانوں کو اس المناک واقعہ سے سبق حاصل کرناچاہئے کیونکہ ملک مزید سیاسی عدم استحکام کا شکار نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن