امیر محمد خان
نمائندہ خصوصی(جدہ )
سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک انسانی زندگیوں کا سانحہ بنگلہ دیش میں محصورین کا ہے جو پاکستان کا نام لینے کی بناء پر اپنی تین نسلیں کیمپوں میں گزار رہے ہیں جو انسانی زندگی کیلئے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں یہ لوگ پاکستان سے محبت کی سزاپارہے ہیں ،قابل فخر ہیں یہ لوگ جو اسے سزا نہیں بلکہ اعزاز سمجھتے ہیں لیکن انکی باقاعدہ آباد کاری کیلئے کیوں کوئی حکومت یا ادارہ اس طرف توجہ نہیں دے رہا۔محسن ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے ادارے کو اس کام کیلئے وقف کیااور ان کے لئے مالی اور اخلاقی امداد کا یہ سلسہ آج بھی جاری ہے۔انجمن محصورین پاکستان یہاں سعودی عرب میں نہایت جانفشانی سے فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ لیکن بعض صاحب فیصلہ لوگوں اور اداروں کی جانب سے سرد مہری کیمپوں میں موجود کسمپرسی کا شکار لوگو ں کیلئے مشکل کا با عث ہے ۔ تقریباً 3 لاکھ محصورین بنگلہ دیش میں بکھرے ہوئے تقریباً 70 پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگ آزادی کی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مخالفت کی وجہ سے نسل در نسل محصور رہنے والے یہ بھولے بھالے لوگ آج بھی فیصلے کے منتظر ہیں۔ایک بارپانچ لاکھ35 ہزار پناہ گزین رجسٹرڈ ہوئے۔مسلم ورلڈ لیگ نے ان پناہ گزینوں کی مدد کیلئے ان کے کیمپوں کے قریب کلینک اور ہسپتال تعمیر کیے اور ان کی مدد کیلئے پیشہ ورانہ تربیتی مرکز بھی بنائے۔ ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف کی سربراہی میں حکومت پاکستان سے رابطہ کیاگیا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی بحالی کے لیے۔مسلم ورلڈ لیگ نے مرحوم صدرضیاء الحق کے باہمی تعاون سے ان لوگوں کو امید کی کرن دکھائی۔ فنڈز جمع کرنے کے لیے رابطہ ٹرسٹ نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا۔ حکومت پاکستان نے 250 ملین عطیہ کئے۔ربیتا نے50 ملین کا عطیہ دیا۔لیکن بدقسمتی سے رابطہ ٹرسٹ کے فنڈز اکتوبر 2001 میں منجمد کر دیے گئے تھے۔ یہ ضروری ہے کہ رابطہ ٹرسٹ کو دوبارہ فعال کیا جائے۔میاں نواز شریف کے دور حکومت میں 1000گھر تعمیر کرکے 3000 خاندانوںکی آباد کاری کا پروگرام مرتب ہوا۔نواز شریف جب دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو انہوںنے اس مسئلے پر توجہ دی دسمبر 1997ء کو رابطہ کا اجلاس بلایا اور ٹرسٹ کو محصورین کی آبادکاری کی ذمہ داری تقویض کی ، بعد میں ان کی حکومت ہی نہ رہی۔
اس نصف صدی میں اسوقت محصورین کی تیسری نسل نامساعد حالات میں پروان چڑھ رہی ہے ۔ستم یہ ہے کہ آج تک اقوام عالم نے محصورین کے کیمپوں میں رہائش پذیر مصیبت زدہ لوگوںکو ’’مہاجر ‘‘ تسلیم نہیںکیا عالمی مجلس محصورین پاکستان کے جدہ ہر حکومت ، سربراہ ، بین الاقوامی اداروںمیں محصورین کی بحالی کی آواز اٹھاتی رہتی ہے، گزشتہ سال مجلس محصورین جدہ کے کنوینر سید احسان الحق نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو ایک خط انکے پورٹل پر بھیجا ہے اس امید سے کہ’’ شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات ‘‘ ستم یہ کہ انجمن محصورین کے اس خط کو وزیر اعظم کے سیکریٹریٹ نے ڈائیریکٹرامیگریشن کو ارسال کردیا ہے جبکہ انکا محصورین کی آباد کاری سے کوئی تعلق نہیں ، دوبار چھان بین کے بعد پاکستان کے سفیر تعینات بنگلہ دیش کو بھیج دیا گیا جو ایک اچھا اقدام ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان سے خط میں درخواست کی گئی ہے کہ
}جبکہ رابطہ ٹرسٹ کی سرگرمیاںبند ہیں اسی نوعیت کا کوئی دوسرا ٹرسٹ انہیں ذمہ داریوں کے ساتھ بنایاجائے اور اسکا سربراہ پنجاب کے وزیر اعلی کو بنایا جائے ، جبکہ 1988 ء میں محصورین کی آباد کاری کیلئے زمین الاٹ ہوچکی تھی اور موجودہ وزیر اعلی پنجاب اس پر بخوبی کام کرسکتے ہیں۔
} رابطہ ٹرسٹ نے 200 ملین ڈالرز 4000 مکانوںکا تخمینہ لگایا تھا اسلئے انجمن محصورین نے استدعاکی ہے کہ 80 ملین ڈالرز کے تخمینہ کے ساتھ 80 گز کے چھوڑے گھر تعمیر کئے جائیں،۔امریکی حکومت کے پاس رابطہ ٹرسٹ کے ضبط شدہ 45 ملین ڈالر واگزار کروائے جائیں ۔
}اسلامی تعاون تنظیم ، اسلامی بنک ، اقوام متحدہ کے اداروںکے ذریعے فنڈ کے حصول کو ممکن بنایا جائے اور پاکستان کے مقامی بنک سستے قرضے فراہم کریں تاکہ محصورین آباد ہوسکیں۔
}ساتھ ہی بنگلہ دیش کی حکومت ان خاندانوںکی آباد کاری اور فنڈز کا اہتمام کرے جو بنگلہ دیش میں آباد ہونا چاہتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، وعدے بھی کرتی ہیںمگرضرورت اس بات کی ہے آبادکاری اوربحالی کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔