اگر میں کہوں کہ ہماری تاریخ سانحات کی تاریخ ہے تو مبالغہ نہ ہوگالیکن یہ موقع نہیں کہ یہاں اس تاریخ کی تفصیل بیان کی جائے ۔ یہ وقت ہے ایسے سانحہ کو بیان کرنے کا جو شاید ہمارے قومی حافظہ سے کبھی مٹ نہیں پائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھلے کئی اندوہناک حادثات شعور کے پس پردہ چلے جاتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی کہتا ہے کہ اسے کہنا دسمبر آگیا ہے تو سرد ہوا کے چند جھونکے ان سبھی واقعات کی گرد کو ذہن کے شیشہ سے صاف کرکے ہمیں ان تصویروں کو صاف دکھاتے ہیں جن میں آرمی پبلک اسکول کی خون میں لت پت بن کھلی معصوم کلیاںمرجھائی نظر آتی ہیں اور یہ دکھ پھر سے تازہ ہوجاتا ہے۔ بحیثیت لکھاری یہاں مجھے مولانا شبلی نعمانی یاد آتے ہیں جنہوں نے سانحہ کانپور کی مسجدکے شہید ہونے کے موقع پر اس واقعہ میں جان گنوانے والے بچوں کیلئے ایک نظم تخلیق کی جس کا ایک شعر ہے کہ
عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں
کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سوجانے کی عادت ہے
مولانا نے کس خوبصورتی سے ایک بڑے سانحہ میں کچلے جانے والوں پھولوں کی شہادت کو جمالیاتی سانچے میں ڈھالتے ہوئے سب سے پہلے جانیں دینے والے بچوں کو انکے جلد سوجانے کی عادت سے تشبیہ دی ہے لیکن میرے پاس ایسا کوئی فنی سانچہ نہیں کہ جس میں اپنے دکھ کو انڈیل کر کسی شعر ،نظم یا تصویر میں ڈھال سکوں۔ میرے پاس تو بس نثر کا یہ کھردرا پن ہے اور یہ غزل بھی نہیں ہے کہ جس میں بیان غم سے غم آرزوکے دو چنداں ہونے کا اندیشہ ہو۔
کوئی بھی ٹریجڈی پڑھیں تو دو نکات واضح معلوم ہوتے ہیںایک یہ کہ ہر ٹریجڈی کے پیچھے انسانی غلطیاں کارفرما ہوتی ہیں قدرتی آفات ان المیوں کا سبب نہیں ہوتیں ۔ المیے ہمیشہ انسانی غلطیوں ہی سے جنم لیتے ہیں اور غلطیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بانجھ نہیں ہوتیں ان کا کوئی نہ کوئی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے جیسا اے پی ایس پشاور حادثے میں ہوا۔ دوسر نکتہ یہ ہے کہ المیے کے ناظر خود کو ان کرداروں کی جگہ رکھ کر خوف محسوس کرتے ہیں کہ ممکن تھا کہ ان کرداروں کی جگہ وہ خود مبتلائے مصیبت ہوتے۔ اے پی ایس پشاور حادثہ کے بعد ہم ایسے ہی خوف کا شکار ہوگئے تھے۔ ہمارے بچے کئی عرصہ تک اسکول جانے سے گریزاں رہے ۔ ماں باپ بچوں کو اسکول بھیج کر انکی گھر صیح سلامت واپسی تک پریشان رہتے تھے کہ نہ جانے کس وقت کب کہاں کیا ہوجائے لیکن ہماری سیاسی و عسکری قیادتوں کی باہمی کوششوں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر عوام کو اس تکلیف دہ خوف سے نجات دلائی۔سات سال قبل ہوئی اس خوفناک دہشت گردی سے اب تک ہم نے اسکے خلاف جو اقدامات کئے، قابل تحسین ہیں ہماری قوم جس طرح سے اسکے خلا ف جنگ کیلئے متحد ہوئی اور یک جہتی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ہماری سیاسی قیادت نے بھی عسکری قوتوں کی مکمل پشت پناہی کی جو کہ ضروری بھی تھا۔ کیو نکہ عوامی یاسیاسی تائید ہی سے عسکری قوت کو اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے اور ہماری افواج نے بھی پچھلی ایک دہائی سے انتہائی فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے براہ راست سیاست میں مداخلت سے گریز کیا ہے۔اس طرح کی دہشت گردی اور تشدد کا علاج مکمل جمہوریت ہی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کا پودا جیسے جیسے تناور درخت میں تبدیل ہوگا ویسے ویسے ہم اپنے دیدہ و نادیدہ دشمنوں کی اس طرح کی کاروائیوں پر قابو پاسکیں گے۔
پاکستانی قوم کا مزاج کافی جذباتی ہے جس کیلئے ہم حادثات اور سانحات سے ایک جذباتی تعلق استوار کر لیتے ہیں اب المیے کے اظہار سے صرف اپنا کیتھارسس ہی نہیں بلکہ ہمیں اپنا رخ من حیث القوم اس طرح سے تبدیل کرنا ہے تا کہ ہم اقوام عالم میں سرا ٹھا کر جی سکیں اور اس دنیا میںہمارا قومی مقصد انسانیت کی فلاح ہی ہو‘جسے باقاعدہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ان بچوں کا خون رائیگاں نہیں گیا۔سیاسی ، عسکری و عوامی باہمی کوششوں سے ہم دہشت گردی سے نجات پاچکے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ عدم برداشت کے رویوں سے ابھی تک نجات حاصل نہیں کرسکے۔ تشدد کی لہریں ابھی بھی اس معاشرے میں ان جگہوں پر جنم لیتی ہیں جہاں معاشی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں تو ایسے میں کیا بعید ہے کہ ایسے واقعات دوبارہ ممکن نہ ہوں گے۔ ہمیں ان گزرے سالوں میں پیچھے مڑکر دیکھنے کی ضرورت ہے کیا ان بیتے سالوں میں ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھ چکے۔وطن عزیز میں جنم لینے والے المیوں میں ہم کتنے ذمہ دار ہیں ۔ دہشت گرد عناصر اور انکے ذریعے پیدا ہونیوالی دہشت گردی میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ قوت بازو کے ساتھ ساتھ سیاسی فہم و فراست بھی آئندہ اس طرح کے واقعات کے نہ ہونے کی ضمانت بن سکتے ہیں ۔ وطن عزیز میں دہشت گردی کی پرانی نرسریوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں شعور ی کوشش جاری رکھنا چاہئے کہ کسی طرح کی نئی نرسریاں تیار نہ ہوسکیںتاکہ دشمن قوتیں انہیں اپنے حق میں استعمال نہ کرسکیں۔ ہمیں اپنے دیدہ و نادیدہ دشمنوں کی کی فہرست میں کمی لانے کیلئے وہ سبھی اقدامات کرنے ہونگے جو ہم کرسکتے ہیں ۔بے شک وہ معصوم بچے جلد سوگئے ہیں اور وہ اب کبھی اٹھنے والے نہیں ہیں۔ لیکن قصہ یہاں ختم نہیں ہوا میرا یقین ہے کہ وہ بچے ہمیں دیکھ رہے ہیں ۔