جب بھی دسمبر آتا ہے دو دلخراش واقعات یاد کروا کر اداس کر دیتا ہے، یہ سانحات 16 دسمبر کو پیش آئے، ایک 1971 ء میں جب مشرقی پاکستان الگ ہو گیا اور دوسرا 2014ء میں، جب آرمی پبلک سکول پر دہشتگردوں نے حملہ کر کے معصوم بچوں کو شہید کر دیا.
ان دونوں واقعات کا سر غنہ بھارت ہی ہے. پاکستان توڑنے کیلئے بھارت نے مکتی باہنی تحریک کو مضبوط کیا اور افغانستان کے ذریعے طالبان کو پاکستان مخالف سپورٹ کر کے اے پی ایس جیسے واقعات کرواتا رہا.سقوط ڈھاکہ میں مرکزی کردار مکتی باہنیوں کا تھا، صدیق سالک نے اپنی کتاب '' میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا '' میں ان تمام دلخراش واقعات کا ذکر کیا ہے جو پاکستان ٹوٹنے کا سبب بنے. اپنی کتاب کے باب نمبر 12 '' مکتی با ہنی '' میں وہ لکھتے ہیں کہ 1971ء کی جس شورش نے ماہ دسمبر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کی اسکی پشت پناہی بھارت کر رہا تھا. وزیراعظم اندرا گاندھی نے 27مارچ کو لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سبھا کے معزز ارکان کو یہ یقین دلانا چاہتی ہوں کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے متعلق بر وقت فیصلے کیے جائینگے اور پھر یہ قرارداد منظور کی گئی کہ یہ ایوان ان باغیوں کو یقین دلاتا ہے کہ انکی جدوجہد اور قربانیوں کو بھارت کی بھرپور حمایت، ہمدردی اور مدد حاصل رہے گی. اسی روز بھارت کے ایک اہم ادارے انسٹیٹیوٹ آف سٹرٹیجیک سٹیڈیز کے سربراہ سبرامنیم نے عالمی امور کی بھارتی کونسل کے زیر اہتمام مزاکرے میں یہ اعلان کیا کہ بھارت کو اب اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے اسکا مفاد پاکستان کی شکست و ریخت میں ہے. اس تقریر کے دوران اس نے پاکستان کو بھارت کا دشمن نمبر ایک قرار دیا. بھارت نے پاک فوج کی جنگی صلاحیتوں کو کند کرنے کیلئے مکتی باہنی کو منظم کیا.مکتی باہنی میں ریڑھ کی ہڈی سابق ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رایفلز کے باغی افسر اور سپاہی شامل تھے. ہندوستان میں انکی صفوں میں عوامی لیگ کے رضاکار یونیورسٹی کے طلبا اور تنومند پناہ گزین بھی شامل کیے گئے انکی قیادت کرنل ریٹائرڈ ایم اے جی عثمانی کے سپرد تھی. باغی فوج کو سیاسی چھتری مہیا کرنے کیلئے عوامی لیگ کی مفرور قیادت تاج الدین، قمر الزمان، منصور علی اور مشتاق احمد کا استعمال کیا گیا جن کا مشن تھا کہ مکتی باہنی کی مسلح جدوجہد اور بھارت کی سر پرستی سے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا جائے. بھارت کے جنگی آقاؤں نے مکتی باہنی کیلئے تین مقاصد مرتب کیے، سب سے پہلے وہ سارے مشرقی پاکستان میں پھیل کر پاک فوج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز کرے اسکے بعد گوریلا کارروائیوں کو رفتہ رفتہ تیز کر کے پاکستانی افواج کے مورال کو کمزور کرے اور آخرکار اگر پاکستان اس چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر کھلی جنگ پر مجبور ہو جائے تو یہی مکتی باہنی بھارت کی باقاعدہ فوج کیلئے مشرقی فیلڈ فورس کا کام دے سکے.ان مقاصد کو سامنے رکھ کر ایک بھارتی جرنیل کی نگرانی میں مکتی باہنی کو تربیت دی گئی اور ستر ہزار افراد کو گوریلا جنگ کی تربیت دیکر مشرقی پاکستان بھیجا گیا. مارچ کی فوجی کارروائی اور دسمبر کی باقاعدہ جنگ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے. پہلا دور جون اور جولائی کا، جس میں مکتی باہنی نے اپنی کارروائیوں کو سرحدی علاقوں تک محدود رکھا اور بھارتی فوج کی مدد سے چھوٹی چھوٹی کارروائیاں کرتے رہے. دوسرا دور اگست سے ستمبر تک کا ہے جس میں مکتی باہنی فوجی قافلوں پر حملہ کرنا شروع ہو گئے، تیسرے دور اکتوبر سے نومبر میں یہ باغی بھارتی توپوں خانوں سے سرحدی چوکیوں پر حملہ کرے رہے اور جب اسلحہ کم پڑ جاتا تو بھارت روسی اسلحے کے ذریعے انکی مدد کرتا رہا.قارئین : صدیق سالک کی کتاب کی چند سطور اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت نے کس طرح پاکستان کو دو لخت کرنے میں کردار ادا کیا لیکن دوسری طرف ہماری اس وقت کی فوجی اور سیاسی قیادت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو نہ بچا سکے. یقیناً اس وقت کی قیادت نے بنگالیوں سے ظلم و زیادتی بھی کی انکو انکے جائز حقوق سے محروم رکھا. جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ ہوا۔گزشتہ روز عمران خان نے بیان دیا تھا کہ سانحہ اے پی ایس ایک ایسا حادثہ تھا جس کے بعد تمام پاکستانی قوم متحد ہو گئی تھی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ایک پیج پر آ گئی تھی.پاکستان کی ترقی و خوش حالی میں شہدا کا کردار اہم ہے اور انکی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائے گئیں. آج سولہ دسمبر ہے یہ جب بھی آتا ہے اپنے ساتھ یہ دو دلخراش واقعات لے آتا ہے. دعا ہے کہ اس طرح کے سانحات پھر کبھی رونما نہ ہوں۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو